انٹرنیٹ پر حاصل آزادی درحقیقت پابندیوں کا مجموعہ اور پابندیوں کی ایسی ترقی یافتہ شکل ہے جس کے قیدیوں کو آزادی اور متعلقہ آزاد افراد کو قیدی ہونے کا احساس دلا رہا ہے اور یہ تکنیکی و پیچیدہ بات صرف وہی انٹرنیٹ صارفین باآسانی سمجھ سکتے ہیں ”جنہیں انٹرنیٹ کی ایجاد“ اِس کے کام کاج کے طریقہ کار اور حالیہ چند برسوں میں انٹرنیٹ کے حوالے سے متعارف کی گئیں تبدیلیوں سے متعلق درجہ بہ درجہ گہرائی سے علم ہو۔ انٹرنیٹ آزادی و پابندی کا حسین امتزاج ہے اور اِس بات کو وہ لوگ بھی باآسانی سمجھ سکتے ہیں جو کچھ عرصے اِس سے وابستہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ اِس سے الگ رہیں اور پھر دوبارہ جڑیں تو اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ کسی خاص عرصے میں کیا کچھ تبدیل ہوا ہے۔ ایسی ہی ایک رائے جمہوری اسلامی ایران سے آئی ہے جہاں انٹرنیٹ کی آزادی اور اظہارخیال کی آزادی کےلئے تحریک چلانے والے ایک کارکن (سوشل میڈیا ایکٹوسٹ) کو سال دوہزارآٹھ میں ”منفی سرگرمیوں“ کی پاداش میں 19برس قید کی سزا سنائی گئی اور دورانِ قید اُن کا رابطہ انٹرنیٹ کی دنیا سے مکمل طور پر منقطع رہا جبکہ اِس دوران انٹرنیٹ رواں دواں رہا اور ترقی کی بجائے تبدیلیوں کی منازل طے کرتا رہا۔ چھ برس بعد جب حسین درخشاں نامی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ قید میں تخفیف کے بعد رہا ہوئے تو قید میں جانے سے پہلے اور چھ برس بعد کے انٹرنیٹ کو بالکل مختلف پایا اور اِس بارے میں اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے اُنہوں نے ترقی پذیر ممالک کے انٹرنیٹ صارفین کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی ہے کہ انٹرنیٹ جو پہلے متنوع اور آزادی¿ اظہار کا ذریعہ ہوا کرتا تھا لیکن اب بالکل تبدیل شدہ حالت میں دستیاب ہے اور وہ انٹرنیٹ کے دھوکے کا شکار نہ ہونے کے لئے اپنی خواندگی کی سطح میں اضافہ کریں۔ یقینا انٹرنیٹ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے لیکن انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل آزادی ہر دن محدود ہو رہی ہے جو اِس کی روح اور بنیادی مقصد جیسے بنیادی اصولوں کے منافی اقدام ہے۔ عالمی سطح پر یہ سوال پوچھا اور سوچا جا رہا ہے کہ دنیا کو ایک گاو¿ں کی شکل میں سمیٹ کر یکجا کرنے والا ایک ایسا اسلوب کہ جو انقلابی تھا لیکن تفریح و تعریف کا ذریعہ بن چکا ہے تو نکتہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کیا تھا‘ کیا ہے اور موجودہ پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اِس بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے والے جس نتیجے پر بھی پہنچیں اُن کا اِس ایک نکتے پر اتفاق ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ نظریات اور تصورات کے آزاد تبادلے کا ذریعہ نہیں رہا یعنی حکومتیں انٹرنیٹ صارفین کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہیں اور اِس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں نے انٹرنیٹ پر غلبہ کر رکھا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے انٹرنیٹ کی آزادی مزید سلب ہوئی ہے اُور اب انٹرنیٹ شفافیت‘ احتساب‘ جمہوریت اور سماجی انصاف جیسی تحاریکیوں کا نام نہیں بلکہ اِس پر حکومتوں اور کمپنیوں کی اجارہ داری ہو چکی ہے جو جانتے کہ کون کہاں سے کیا لکھ رہا ہے‘ کیا پڑھ رہا ہے‘ کیا دیکھ رہا ہے اور اُس کی سوچ و رویئے کیا ہیں۔ اِنٹرنیٹ آزاد نہیں رہا‘یہ نتیجہ خیال گزشتہ ماہ ڈیجیٹل مارکیٹ سے متعلق ایک تحقیقی مقابلہ کے شرکاءنے امریکی پارلیمان کی ذیلی کمیٹی کو بھی اِسی قسم کے حالات سے آگاہ کیا۔ کمیٹی نے کہا ہے کہ ایمازون‘ ایپل‘ فیس بک اور گوگل جیسی امریکی ٹیکنالوجیکل کمپنیوں نے اپنی اجارہ داری کی طاقت کا غلط استعمال کیا جو کہ اوپن انٹرنیٹ کے اصولوں کے خلاف ہے اور حالیہ چند برسوں میں کمپنیوں نے متضاد طریقوں سے اپنی مارکیٹ کی طاقت کو بڑھایا ہے کمیٹی نے متعلقہ اِداروں سے یہ بھی سفارش کی کہ وہ مسابقت کی بحالی‘ جدت اور جمہوریت کے تحفظ کےلئے اقدامات اُٹھائیں‘ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ اُور ترقی پذیر ممالک میں صارفین کی اکثریت فیس بک ہی کو انٹرنیٹ سمجھتی ہے اُور ایسا سمجھنے والوں میں پانچ فیصدی امریکی صارفین بھی شامل ہیں جبکہ بھارت کے 58فیصد اُور شاید پاکستان کے ساٹھ فیصد سے زائد انٹرنیٹ صارفین کے خیال میں فیس بک یا سوشل میڈیا وسائل (ٹوئیٹر ‘ انسٹاگرام اُور یوٹیوب) کا نام ہی انٹرنیٹ ہو! لیکن انٹرنیٹ اِس سے کہیں زیادہ بڑے تصور کا نام ہے‘ انٹرنیٹ صارفین کی اِس ناخواندگی کا فائدہ امریکی کمپنیاں اُٹھاتے ہوئے روزمرہ معمولات کے کام اپنی ایپلی کیشنز کے ذریعے متعارف کروا کر اربوں ڈالر بٹور رہی ہیں‘ درحقیقت ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں اپنے متعارف کردہ نظاموں کواِس انداز سے تشکیل و مارکیٹ کرتی ہیں جس سے انٹرنیٹ صارفین کو خوشگوار تجربے کا احساس ہو لیکن یہ خوشگوار تجربہ درحقیقت اُن کی آزادی اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو محدود کر رہا ہے۔