اس بار تو سردی نے آنے میں بہت جلدی کی ہے ‘موسم کا یہ جارحانہ انداز تشویشناک ہے ‘ وہ اس وجہ سے کہ یہی دن کورونا کے لئے خطرناک ہو سکتے ہیں‘ سکولوں کالجوں کے پھر بند ہونے کا اندیشہ ہے ‘ ابھی کچھ دنوں میں فائنل را¶نڈ کھیلا جائے گا یا تو دو ماہ کے لئے پھر تعلیمی اداروں کے دروازوں پر تالے پڑ جائیں‘ پھر جب دو ماہ کی چھٹیاں قریب الاختتام ہوں تو عجب نہیں سکولوں کے دروازوں کی وا گزاری کےلئے نئی تاریخ دی جائے‘آگے لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں ۔ پچھلے لاک ڈا¶ن میں تو روٹی پانی کی وہ بندش ہوئی اور روپے پیسے کی وہ بربادی دیکھنے میں آئی کہ بھلے چنگے بھی جیسے بھیک مانگنے کو تیار ہوئے‘ اب جو سکول کھلے تو پھر سے سردی کے زیادہ ہونے کے کارن کورونا کی حملہ آوری اس روانی میں خلل انداز ہو کر سکول کے شٹر ڈا¶ن کر دے گی‘ اس اکتوبر کے شروع میں اس شہرِ دلبراں کی ہوا¶ں میں یخنی کی لہریں موجیں مارنے لگی تھیںمگر سالانہ کلینڈر کے مہینے کا صفحہ الٹا تو سردی نے جیسے بریک سے پا¶ں ہٹا دیا‘ گز شتہ دنوں کی شام کے وقت کی بوندا باندی اور رم جھم کی مکس کیفیت نے موسم کو خوبصورت بنا دیا تھا۔” روک سکو تو پہلی بارش کے قطروں کو تم روکو ‘ کچی مٹی تومہکے گی ہے مٹی کی مجبوری “(محسن بھوپالی)‘اس وقت ہم ایک شادی ہال کے باہر مین گیٹ پر استقبالیہ کے بزرگان کےساتھ کھڑے بارات کاانتظار کر رہے تھے۔ اندرونِ شہر سرکی کے ٹیڈی گیٹ کے باہر جواس بونداباندی سے پھسلن ہوئی تو ہمارے سامنے دس منٹ میں چار موٹر سائیکلوں کے حادثات رونما ہوئے‘جیسے یہ جگہ برمودہ ٹرائی اینگل ہو‘چلتے چلتے ناحق پھسل کر موٹر بائیک وہ دور جا پڑتے‘ شاید اس جگہ موٹر بائیک کے مستریوں کی ورکشاپیں ہیں جس کی وجہ سے یہاں موبل آئل تو گرتا ہو مگر عام دنو ںمیں سوکھا ہو ‘اس باریک بارش نے اس روغنی محلول کو متحرک کر دیا اورسڑک پر جیسے پھلسن کے لئے زمین ہموار کر دی ‘ مگر دوسرے دن ہفتہ کو تو جم کر بارش ہوئی اور پورا دن آسمان سے بادہ¿ گلفام برستی رہی‘ پھر جب تک کمپیوٹر کے اس کی بورڈ پر سردی سے مفلوج ہوئی جاتی انگلیاں متحرک ہو کر سرگرمی حاصل کرتے ہوئے کالم کاری کے لئے رقص کناں ہیں گھرکے منگ کے پلاسٹک شیٹ پربارش کی ٹپ ٹپ کی آواز اپنے وجود کا احساس دلارہی ہے‘مگر ہم نے غالب کے شعر کے حوالے سے ابھی تک اپنے جام سبونہیں توڑے ‘” توڑبیٹھے جبکہ ہم جام و سبو پھر ہم کو کیا ‘آسماں سے بادہ ¿ گلفام گر برسا کرے“‘مگر یہ شعر یاد آتا ہے تو دل میں اک چیخ سی ابھرتی ہے ‘” وہ مرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پر برس گئیں‘ دلِ بے خبر میری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا “ ( امجد اسلام امجد)‘ ” اس کو بھولے تو ہو©ئے ہو فانی ۔کیا کروگے اگر وہ یاد آیا“(فانی بدایونی) ‘ بارشوں کا کیا ہے کچے مکان پر بھی برس جاتی ہیں اور سنگِ مر مر کے ایوانوں میں اور اندر غلام گردشوں کے اوپر رم جھم کی موسیقی پیدا کرجاتی ہیں ‘ادھر گلگت میں منفی درجہ حرارت میں بھی عوام نے ذوق و شوق سے جاکر ووٹ ڈالے ‘ اس برفانی ہوا نے ہمارے شہر بے کراں کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ‘پنکھے تو مستقل بند ہو گئے ہیں‘کمبل نکل آئے ہیں‘ گھر کے سوئی گیس کے چولھوں پر برفباری تو موسم ِ گرمامیں بھی ہوئی اور اب تک روزانہ کے حساب سے جاری و ساری ہے ‘ سو دامنِ دل میں جو امیدیں چن کر یکجاکر لی گئی تھیں درخواست ہے کہ دامن جھٹک دیں ‘گیس کے سلینڈر اپ ڈیٹ رکھیں‘رات گئے یہ امید بھی دم توڑدے تو کون سی دکان کھلی ہوگی کہ جہاں سے یہ سلینڈر بھروائیں گے‘سردیا ںآئی ہیں تو شادی ہالوں کی محدود و مفقود رونقوں میں سرگرمی دیکھنے کو مل رہی ہے ‘مگر وہ بھی کم کم ہے‘ جیسے سردریاب کے اڑنگ درنگ موجیں مارتے پانی کے پاس خیالی دریا کے کم پانی کا بہا¶ ہے ‘کورونا کی کارستانی کی وجہ سے شہری میتوں پر نہیں جارہے ‘ پھر شادیوں میں کیا جائیںگے‘ اگر جاتے بھی ہیں تو کوشش ہوتی ہے کہ کسی سے ہاتھ نہ ملائیں‘مگر ہماری ثقافت کااتنا گہرااثر ہے کہ خود نہ ملانا چاہیں مگر سامنے والے کے ہاتھ آگے بڑھادینے سے مجبور ہو کرہاتھ ملا لیتے ہیں ‘سو مجبور ہونا ہے تو پھرشادی ہی میں کیوں شریک ہوں‘ یہ سوچ کر کچھ لوگ تو ماتم کے مواقع پربھی نظر نہیں آتے‘سچ پوچھیں تو کورونا کارن میل جول کے وہ مزے نہیں جو اس کووڈ انیس سے پہلے تھے‘اس سردی میں شدید حملے ہوں گے ‘پھر نئی نئی باتیں ہیں جن کی وجہ سے ایک نامعلوم ڈر دل کو اندر اندر کھائے جاتا ہے ‘ کسی چیز کامزہ نہیں ‘ کہیںآنے جانے کا پتا نہیں‘کئی دوست یار ہیں رشتہ دار ہیں جو پندرہ دن کےلئے گھرمیں اپنے آپ کو قید کر کے اس مرض سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں‘دیکھیں بہتری کی کوئی نوید ہو کوئی شبرات کوئی عید ہو ایسی ساعتِ سعید ہو املنے جلنے والوں کی دید ہو اور کوروناناپید ہو جائے‘ خواتین کپڑے دھونے سے گریزاں ہیں کہ دھولیں گی سوکھیں گے کیسے ‘کیونکہ کل ہے یا آج ہے کالی گھٹا¶ں کا راج ہے ۔