علم ایک لازوال دولت،بچوں کے مستقبل کا قیمتی خزانہ اور خدا کی عطا کردہ نعمت ہے۔ تعلیم وہ طاقت ور آلہ ہے جس سے انسان کی شخصیت اورروحانیت کی منازل طے ہوتی ہیں۔تعلیم یافتہ افراد مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں۔تعلیم سے ہی ہم اپنے تہذیبی ورثے،علمی روایات، ثقافتی زیور اور اعلیٰ اقدار کو نہ صرف سنبھال کر اس سے مستفید ہو سکتے ہیں بلکہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ماحول اورحالات کے مطابق نئے رنگوں سے سجا کر تخلیقی تعمیرنو کا عمل بھی مکمل کر سکتے ہیں۔اسلام اور علم کا تعلق جان وتن کے رشتے کی طرح ہے۔اسی لئے اسلام میں علم کا حصول ہر مسلمان مرد وعورت کیلئے فرض اورضروری قرار دیا گیا ہے۔ تعلیم کا یہ مطلب ہے کہ نئی نسل کو اس طرح تیار کیا جائے کہ وہ زندگی کے بنیادی قدروں کو سمجھ سکیں اور ان کے اندر زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہو نیکی صلاحیت پیدا ہو جائے۔اس سے واضح ہو تا ہے کہ جہاں اولاد کے دوسرے حقوق ہیں وہیں ماں باپ پر اولاد کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ ان کی بہترین تعلیم وتربیت کا انتظام کرے کیونکہ تحصیلِ علم انسان کا بنیادی فریضہ ہے جس کے بغیر انسانی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔آج کے مسلمانوں کی صنعت وحرفت، سائنس اور ٹیکنالوجی، معیشت وتجارت کے میدانوں میں دوسری اقوام سے پیچھے رہنے کی بنیادی وجہ تعلیمی میدان میں پستی ہے۔جب تک علم مسلمانوں کی میراث اورجاگیر رہی تب تک وہ زندگی کے ہر شعبے میں بالادست رہے لیکن جب انہوں نے علم سے منہ موڑ لیا تو ذلت ورسوائی ان کا مقدر ٹھہر گئی لہٰذا جب تک مسلمان تعلیم سے آراستہ اور حصولِ علم کی طرف راغب نہ ہوں گے اس وقت تک نہ تو وہ دینی حیثیت سے کوئی عزت کامقام حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی دنیاوی ومادی حیثیت سے کوئی ترقی کر سکتے ہیں یہ علمی مسابقت کا زمانہ ہے جو قوم علمی حیثیت سے ممتاز اور مضبوط ہو گی اس کے سر پرتاجِ افتخار جگمگائے گا اور دنیا اسے عزت کی نظروں سے دیکھے گی ’یہ پوری مسلم قوم کی غیرت وحمیت کا امتحان اور سوال ہے‘ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان جادہ منزل کو اچھی طرح پہچان لیں اور ایک ہوش ومند قوم کی طرح وقت کی نزاکت اور مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کریں اور ہر رکاوٹ اور دشواری سے بے پرواہ ہو کر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کا بندو بست کریں۔کیونکہ علم عزت ہے اور عظمت ہے۔علم ایک ایسی بے مثال دولت ہے جسے نہ تو کو ئی چرا سکتا ہے اور نہ ہی کم کر سکتا ہے۔ایک انسان سائنسدان بن کر جب اپنے علم وحکمت سے کسی ایک مرض کی دوا بنا تا ہے تو وہ ساری دنیا کے مر یضوں کیلئے مفید ہو تی ہے۔ ایک آدمی جب ذہن وفکر کو علم کی نورانیت بخشنے والی کوئی کتاب لکھتا ہے تو اس سے ساری دنیا مستفید ہو تی ہے۔ایک آدمی جب اپنے علم وعمل سے کوئی نئی تحریک، کوئی نئی فکر کوئی نیا طرزِ حیات وضع کر تا ہے تو وہ نظریہ ساری دنیا کی زندگی کا رخ موڑ دیتی ہے۔اہلِ علم ہر ایک چیز کو سمجھتا ہے اور وہ کسی معاملے میں محتاجی محسوس نہیں کرتا۔دولت آنی جانی چیز ہے اسے ہر قدم پر سنبھال کر رکھناپڑتا ہے ۔لیکن علم ایسی دولت ہے جس کو کوئی زوال نہیں،علم ہاتھ کامیل نہیں ، قلب ونظر کا نور اور روح کی خوشبو ہے۔ یہ کائنات کے ذرے ذرے میں بس جاتی ہے اور جس چیز میں بس جاتی ہے اسے اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔علم ایسی دولت بے بہا ہے جو خرچ کرنے سے بڑھتی ہے۔ اہلِ علم کو کسی چور اچکے کا کوئی کھٹکا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ایک طرح کا سکون ایک طرح کی بے فکری اور ایک طرح کا اطمینان پایا جاتا ہے۔ اسے اپنے علم کی حفاظت کیلئے کسی نگہبان یا دربان کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ علم بذاتِ خود محافظ بن کر ملک وقوم، تہذیب وثقافت اوراخلاق وافکار کی حفاظت کرتا ہے۔ انسانی وقار وشرافت کو فروغ دیتا ہے اور انسان کو اس ارتقائی مقام پر پہنچا دیتا ہے، علم ہی اصل دولت ہے اس کے مقابلے میں جائیداد اور دولت کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہے۔