ولیمہ اور بد پرہیزی

کھیر تو ہم نے بھی کھائی ۔پھر ڈر بھی تھا کہ آخری آئٹم ہے کہیں ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے ۔باوجود سفید ہونے کے آخر جب شادی ہال کی بتیاں رات دس بجے گل ہو جائیں گی تو کھیر کا نظر نہ آنا برا ہوگا۔ پھر نگاہ میٹھے مربع پر بھی تھی ۔حالانکہ آخر میں کھاتے ہیں مگر ہم نے تو اسے دیدہ و دل میں پہلا مقام دیا تھا اور اس کے لئے پہلے سے تیاری کر لی تھی۔ کھیر کی پلیٹ چپکے سے سرکا کر اپنے پہلو میں لے آئے تھے۔ایک شاندار شادی ہال شاندار ولیمہ۔کھانے کے ایک سے ایک آئٹم اور ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔ آنکھوں میں بھوک کی شدت سے خون اترا ہوا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ہم نے رات کے اس خوبصورت موقع کے لئے گھر میں دوپہر کو بھی ہاتھ کھینچ کر کھاناکھایا تھا کہ ابھی دو ایک گھنٹے کے بعد ولیمہ کے لئے بھی جاناہے ۔زوجہ نے پوچھا بھی تھا کہ خیر تو آج کھانا کیوں نہیں کھا رہے ۔ہم نے کہا جی نہیں ہے ۔سامنے ٹی وی پر شوگر کے عالمی دن کے موقع پر کچھ کہہ رہے تو تھے مگر ہم نے دھیان نہ دیا ۔شام کومعدہ مشتعل ہو چکا تھا۔شادی ہال میں نارنج کے چاولوں پر تو ہم جان دیتے ہیں ۔پھر اس میں گوشت بھی بغیر ہڈی کے تھا۔ سو اب سوائے اس کے چارہ نہ تھا کہ پلا¶ کے مجمع پر حملہ آور ہوا جائے۔سو پِل پڑے ۔نرگسی کوفتوں کی طرف الگ دھیان تھا کہ وہ بھی ہاتھ سے جانے نہ پائیں۔ اوپر تمیز کا لبادہ اوڑھاتھا اور اندر بد تمیزی انگڑائیاں لے رہی تھی۔ایک صاحب تو پلیٹ اٹھاکر میزوں کے چکر لگا رہے تھے ۔ اپنی پلیٹ میں جیسے ایک پہاڑی بنارکھی تھی ۔سب کچھ جو کھانے کے لئے موجودتھا ڈال کر اپنی چوٹی دار پلیٹ کی بلندیوں پر کھیر کی سفیدی یوں خوبصورت طریقے سے جڑ دی تھی کہ لگتا ہمالیہ کے پہاڑ کی چوٹی پر برف گری ہوئی ہے۔اس عجیب و غریب انداز سے ہمارے دل کو ڈھارس ہوئی کہ چلو ہم اکیلے نہیں یہاں تو ہماری طرح اور بہت ہیں اور پھرکچھ ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ پینٹ شرٹ پہنے ہیں تو کیا ہوا ۔ مگر اس وقت تو وہ نہ آ¶ دیکھتے ہیں نہ تا¶۔ یوں اس میدان میں سرگرمِ عمل ہیں جیسے سیلاب زدگان کے مہاجر کیمپ خیموں میں سرکاری دیگیں آئیں اور وہ ہاتھ بڑھا بڑھاکر لینے کی کوشش میںہیں۔ ایک صاحب نے تو میز کے کنارے میرے ہاتھ سے چمچ ہی چھین کر خود ڈونگے سے اپنی تھالی میں ڈالنے لگا۔جانے اس موقع پر خلقِ عام کو کیا ہو جاتا ہے ۔جب آخر میں ہم کھاتے ہوئے تھک گئے تو کھیر کا خیال آیا ۔ کیونکہ وہاں کھیرایک قسم کی بھی تو نہ تھی۔ تقریباً بارہ اقسام کی کھیر تھی پھر اوپر ڈالنے کے جیلی اور جیلی کے مختلف رنگ الگ کشش دلا رہے تھے۔بفہ روٹی کے پاس کرسیاں بچھی ہوئی تھیں ساتھ میزیں دھری تھیں۔ کھانا پلیٹ میں ڈال کر وہاں آرام سے بیٹھ کر کھایا جا سکتا تھا۔مگر کچھ لوگ ڈونگوں والی میزکے قریب تر رہنا چاہتے تھے۔سو ہم بھی ان کے پہلو میں کھڑے رہے ۔پلا¶ کے بعد اب کھیر کا نمبر تھا۔ کھیر ڈالی مگر زیادہ نہیں کہ اب تو گنجائش ہی باقی نہ تھی۔بعد پلا¶ کھیر کھا لی تو اچانک یاد آیااورکیا یاد آیا پھر کیا کیانہیں یاد آیا۔سوچاکہ ارے یار کھیر میں تو شوگر کا مرض ہوتا ہے ۔ڈاکٹر کی باتیںاور دل کی باتیں اس وقت یاد کہاں رہتی ہیں۔ نرگسی کوفتوں میں بلڈ پریشر کے آثار ہیںاور پلا¶ میں ہائی بلند فشارِ خون ہوتا ہے ۔مگر پلا¶ کھاتے ہوئے ایک لمحہ خیال ضرور آیاتھا کہ ڈاکٹر نے شاید پلا¶ اور انڈے اور گوشت کے بارے میں کچھ کہا تو تھا۔ مگر دل نے کہا جانے دے یار ہربات پردھیان نہ دیا کر اس وقت کھابعد میں دیکھ لیں گے ۔کچھ نہیں ہوتا ۔ایسے ہی باتیں بنی ہوئی ہیں۔شوگر کا خیال آیاتو سوچا انسولین کاہے کو بنی ہے اسی کام کے لئے ہے تو پھر اس وقت احتیاط کی کیا ضرورت ہے ۔گھر کے کھانے ہوں تو بہ سرو چشم احتیاط کریں گے۔ مگر اس قسم کے کھانوں میں شرکت کاموقع روز روز تو نہیںآتا۔کھا¶ اس وقت کھا¶ بعد میں دوا زیادہ کر لیں گے۔سو ہم نے اس وقت ڈاکٹر کو چھوڑ کر مغلیہ بادشاہ کے قول کو اولیت دی ۔کیونکہ اس وقت ہمیںبابرزیادہ کوالیفائیڈ لگ رہا تھا۔ حالانکہ کھیر ہم نے بھی مربع ڈال کر کھائی تھی مگر احتیاط کی تو صرف اس وجہ سے کہ ڈاکٹر صاحب کہیں ناراض نہ ہو جائیں۔ وگرنہ تو ایک شوگر کے مریض کو ہم جانتے تھے جنھوں نے اسی دن صبح کے وقت شوگر کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں ہدایات جاری کی تھیں۔مگر وہ خود بھی تو میٹھی کھیر کی پلیٹ بھر کے ایک طرف ہو کر جلدی جلدی ہڑپ کرنے میں مصروف تھے کہ پھر دوبارہ بھی اسی شادی ہال میں اس موقع پر انھوں نے یہی کچھ دہراناتھا۔