پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کے عنوان سے قومی کرکٹ کے پانچ سال مکمل ہونا غیرمعمولی ہے اور آج (سترہ نومبر) پی ایس ایل کا سالانہ مقابلہ (فائنل میچ) اِس عزم کا اظہار و بیاں ہے کہ پاکستان نے عالمی کرکٹ کی وطن واپسی کے لئے سنجیدہ کوششیں کی ہیں اور ثابت قدم رہا ہے تو پاکستان میں عالمی کرکٹ کی واپسی زیادہ دور نہیں۔ رواں برس بیس فروری کے روز سپر لیگ کے پانچویں سیزن کا آغاز ہوا تھا تب یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ رواں برس ملک کو کن حالات سے گزرنا پڑے گا درحقیقت سال دوہزاربیس غیر یقینی پر مبنی کیفیات کا سال رہا‘ جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ رواں برس کئی انہونی واقعات ہوئے جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پی ایس ایل سیزن فائیو میں تاریخ میں سب سے زیادہ ناکامیاں سمیٹنے والی ٹیمیں یعنی کراچی کنگز اور لاہور قلندرز فائنل میں پہنچ گئی ہیں۔ ”بڑا مقابلہ“ دیکھنے کے خواہشمند شائقین کو کرکٹ کی سب سے بڑی رقابت دیکھنے کو ملے گی جو اب ’پائے بمقابلہ نہاری‘ اور ’چرغہ بمقابلہ بریانی‘ جیسی ٹھنڈی جگتوں سے کہیں آگے نکل گئی ہے اور معاملات خاصے سنجیدہ ہو چکے ہیں کیونکہ اب پی ایس ایل کی خوبصورت ٹرافی پر نظریں جمی ہوئی ہیں!کراچی کنگز نے پہلے کوالیفائر میں ملتان سلطانز کو سپر اوور میں شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی لیکن لاہور نے تو کمال ہی کر دیا۔ ان کو تو ایلیمنیٹر کھیلنا تھے یعنی ہار کا کوئی آپشن نہیں تھا۔ انہوں نے نہ صرف پہلے ناک آو¿ٹ مقابلے میں پشاور زلمی کو باہر کیا بلکہ ’مائٹی ملتان‘ کو بھی شکست دی اور فائنل تک رسائی حاصل کرلی۔ لاہور اور ملتان کے مقابلے کی خاص بات ڈیوڈ ویز کی کارکردگی رہی اور اُن سے اچھا کھیل دیکھنے کی توقع ہے۔ پاکستان سپر لیگ کا پانچواں سیزن صرف بڑا نہیں بلکہ واقعی ’بہت بڑا مقابلہ‘ بن گیا ہے۔ جس میں پاکستان کی اُن ٹیموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھنے کا موقع ملے گا‘ جن کو دیکھنے کی خواہش ایک وقت سے کی جا رہی تھی۔ لاہور کا فائنل میں پہنچنا اس لئے بھی حیرت انگیز ہے کہ دنیا کے جانے مانے کپتان لاہور کی کارکردگی میں فرق پیدا نہیں کرپائے۔ برینڈن میک کولم‘ اے بی ڈی ولیئرز اور حفیظ جیسے کھلاڑیوں نے قلندروں کی قیادت کی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات یعنی پہلے ہی راو¿نڈ میں باہر ہوئے۔ اس مرتبہ سہیل اختر کی قیادت نے ٹیم میں نہ جانے کون سی بجلی بھر دی کہ کوئی اسے روکتا دکھائی نہیں دیتا۔ پی ایس ایل کا پانچواں سیزن اس لحاظ سے بالکل منفرد تھا کہ اس میں وہ ٹیمیں سب سے پہلے باہر ہوئیں جو اب تک لیگ کی سب سے نمایاں ٹیمیں تھیں۔ جیسا کہ سب سے پہلے اسلام آباد یونائیٹڈ ہاری کہ جو پی ایس ایل تاریخ کی سب سے کامیاب ٹیم ہے اور دو مرتبہ چیمپیئن رہ چکی ہے پھر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کہ جو دفاعی چیمپیئن بھی تھا اور مجموعی طور پر تین مرتبہ فائنل کھیلنے کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہے۔ پھر پشاور زلمی کی باری آئی‘ جو کوئٹہ ہی کی طرح ایک مرتبہ کی چیمپیئن اور دو مرتبہ کی رنراَپ ہے لیکن اس بار اس کی بھی ایک نہ چلی۔ ایک تو بمشکل اگلے مرحلے تک آئی اور یہاں بھی پہنچتے ہی لاہور قلندرز کے ہاتھوں باہر ہو گیا۔ لگتا یہ ہے کہ پاکستان پہنچ کر سپر لیگ کی کایا ہی پلٹ گئی ہے۔ اس سے پہلے پی ایس ایل کے چاروں سیزن میں کچھ بلکہ زیادہ تر مقابلے متحدہ عرب امارات ہی میں ہوتے تھے لیکن اس مرتبہ پورا سیزن پاکستان ہی میں کھیلا گیا اور بلاشبہ بہت کامیاب بھی رہا۔ اگر کورونا وائرس کی وبا سے سلسلہ نہ ٹوٹتا تو غالباً پی ایس ایل مقبولیت کے نئے ریکارڈز قائم کر دیتا۔ البتہ کارکردگی اور سنسنی خیزی کے اعتبار سے لگتا نہیں کہ لیگ میں میچ اتنے مہینوں کے وقفے کے بعد ہوئے ہیں۔ سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا بالکل وہیں سے جڑتا نظر آیا ہے۔ وہی سنسنی خیزی‘ وہی جوش‘ وہی جذبہ اور وہی جذبات۔ آخری بار جب کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں قلندرز اور کنگز کا مقابلہ ہوا تھا جس میں کراچی نے کامیابی حاصل کی تھی‘ کیا لاہور اس شکست کا بدلہ فائنل میں لے پائے گا؟ یہ سب دیکھنے کے لئے ٹیلی ویژن کی نشریات واحد ذریعہ ہے ۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کو شہری و میدانی علاقوں کی طرح پی ٹی وی کی نشریات موصول نہیں ہوتیں اور ایسے علاقوں کے رہنے والوں کو کیبل نیٹ ورک یا ڈش انٹینا پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا اپنا ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ)‘ کا آغاز کب سے ہوگا اور اِس کی کمی کے سبب پاکستان کے بالائی علاقوں میں رہنے والوں کو کھیلوں سے متعلق ٹیلی ویژن نشریات دیکھنے کے لئے کتنے جتن و اخراجات کرنا پڑ رہے ہیں۔ کچھ غور اِس بارے میں بھی ہونا چاہئے۔