گلگت بلتستان میں عام انتخابات سول انتظامیہ کی زیرنگرانی ہوئے۔ سبھی چھوٹی بڑی جماعتوں نے اُمیدوار نامزد کئے‘ جن کی انتخابی مہمات پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے اور یہ بات بھی سیاسی جماعتوں کے اتفاق ہی سے طے ہوئی کہ گلگت بلتستان کے انتخابات پاک فوج کی زیرنگرانی نہ کروائے جائیں۔ جب سب کچھ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی منشا کے مطابق ہوا تو پھر انتخابات کے نتائج سے متعلق شکوک و شبہات کے اظہار کا جواز نہیں۔ سال 2018ءکے عام انتخابات کی کہانی بھی گلگت بلتستان سے ملتی جلتی تھی جب کم بیش تمام جماعتوں نے اِس ضرورت پر اتفاق کیا تھا کہ انتخابات فوج کی زیرنگرانی ہونے چاہیئں اور پھر ایسا ہی ہوا لیکن نتائج آنے کے بعد فوج کے کردار پر اُنگلیاں اُٹھائی جانے لگیں۔ آخر سیاسی قائدین اپنے قول و فعل کی ذمہ داری خود کیوں نہیں لیتے؟ تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کےلئے گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) درحقیقت حکومت سے زیادہ قومی اداروں کے خلاف ایک خاص سوچ رکھنے والوں کا اتحاد دکھائی دیتا ہے جس پر نواز لیگ کے بیانئے کی حکمرانی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ سبھی جماعتیں اِس بیانئے کی حمایت کر رہی ہوں بلکہ ’پی ڈی ایم‘ میں ایسی جماعتیں موجود ہیں جو نواز لیگی بیانئے کی حمایت کرنے میں متذبذب رہیں ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بیس ستمبر کے مذکورہ بیانئے سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنا مو¿قف بڑی حد تک واضح کر دیا ہے تاہم گلگت بلتستان میں انتخابات کے حوالے سے پاک فوج کو طلب نہ کرنے سے متعلق اُس کے مو¿قف کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی پیپلزپارٹی ایک ہی ٹانگ پر کھڑی نظر آتی ہے کہ ”میں نہ مانوں!“ کیا یہ سچ نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا نے بھی جہاں ضروری سمجھا جلسے کئے اور حزب اختلاف و حزب اقتدار نے قومی مسائل کا پنڈورا باکس گلگت بلتستان کے ووٹروں کے سامنے کھول کھول کر رکھے جن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ سبھی بیانات اور خطابات کا گلگت کے خاص حالات اور تناظر سے کیا تعلق بنتا ہے! تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دیا ہے تاہم اِس سلسلے میں کچھ قانونی مراحل کی قائدین نے مخالفت بھی کی ہے۔ انتخابات کے نتائج عمومی سرویز کے عکاس ہیں۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ووٹر کا عمومی رجحان مرکز میں حکومت کرنے والی پارٹی کی جانب ہوتا ہے۔ مرکز میں ایک‘ اور کسی صوبے میں دوسری پارٹی کی حکومتوں کے مابین جس کو آرڈی نیشن کی ضرورت ہوتی ہے‘ وہ بلیم گیم کی نذر ہو جاتا ہے۔ آج سندھ اور مرکز کی حکومتیں اس کی افسوسناک مثالیں ہیں! گلگت بلتستان میں انتخابات پرامن ہوئے۔ جس سے متعلق بلاول بھٹو کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن میں جوش و خروش جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا عہد ہے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ مشکل موسمی حالات میں ووٹنگ میں حصہ لینے پر عوام کو سلام‘ خواتین کی شرکت خوش آئند ہے۔ پی پی اور نواز لیگ کے دیگر رہنما انتخابی عمل شفاف بنانے کے لئے الیکشن کمیشن پر زور دیتے رہے۔ ماضی کے تناظر میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ مجلس وحدت المسلمین اس کی اتحادی ہے اور اس کی ایک نشست شامل کرکے تحریک انصاف کی دس نشستیں ہو جاتی ہیں جبکہ خواتین‘ اقلیتوں اور لیبرز کی 9 نشستوں کے انتخاب کے بعد پی ٹی آئی کا گلگت بلتستان اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت کی حیثیت واضح ہو جائے گی۔ اِس سلسلے میں جہانگیر ترین خصوصی مشن پر گلگت بلتستان کی قیادت سے رابطوں میں ہیں اور اطلاعات کے مطابق وہ تحریک انصاف کی حکومت بنانے کی راہ میں حائل چند ایک رکاوٹیں دور کرنے کے لئے ’فرنٹ فٹ‘ پر کھیلنے کے لئے میدان میں اُتر چکے ہیں! ایسی صورت میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی تحریک انصاف میں شمولیت پر تعجب نہیں ہونا چاہئے جبکہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کےلئے ممکن نہیں رہا کہ وہ آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر بھی حکومت بنا سکیں! گلگت بلتستان کےلئے فائدہ بھی اِسی میں ہے وہاں وفاقی حکمراں جماعت اور اِس کے اتحادیوں ہی کی حکومت رہے کیونکہ آئین میں کوئی ایسی پابندی نہیں کہ پاکستان کی آمدنی سے ’این ایف سی ایوارڈ‘ کی طرح مالی وسائل لازماً گلگت بلتستان کو دیئے جائیں گے۔ سیاسی صورتحال واضح اور یقینی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہوئے‘ اِس کے عوام کی رائے کا احترام کیا جائے۔ وہ جماعتیں جو ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگاتی ہیں اُن کے لئے نادر موقع ہے کہ گلگت بلتستان میں دیئے گئے ووٹ کو بھی وہی عزت دیں‘ جس کا وہ حقدار ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دو نام سے جو تحریک چلا رہی ہے اگر اس کا مقصد واقعی شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہے تو پھر انہیں بلیم گیم کا حصہ بننے کی بجائے وزیراعظم عمران خان کی اس پیش کش کا فائدہ اٹھانا چاہیے جس میں انہوں نے حزب اختلاف کو دعوت دی ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس سلسلے میں الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے وزیراعظم نے بات کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ووٹ کی جمہوریت میں ایک اہم حیثیت ہے جس کو بحال رکھنا ازحد ضروری ہے تاہم اس سلسلے میں احتجاج اور ملکی معیشت کو نقصان دوچار کرنے کی بجائے قانون سازی کے ذریعے یہ عمل سرانجام دینا اہم ہے۔