پچھلے سرما میں ڈاکٹر اسحاق وردگ نے ہمیں بھی چپلی کباب کھلانے کی آفر کی تھی ۔ مگر بدقسمتی رہی کہ وقت کی کمی کے باعث ہم اس انعام سے اپنے قصور کے تحت محروم رہے ۔ اب دیکھیں پھر سردیاں آ گئی ہیں شاید دوبارہ آفر ہو۔ مگر اس بار ”ہم نے اپنے جی میں ٹھانی اور ہے“ کہ ان کی پیشکش کو قبول کریں۔ مگر یہ نہ ہو ان کی پیشکش محدود مدت کے لئے ہو۔ٹھنڈے ٹھار دن ہیں۔ سردیوں کی ٹھنڈی دھوپ تلے بیٹھ کر مونگ پھلی چھیل کرکھانے کے دن ہیں۔قہوہ کی سرکیاں لطف دیں گی اور کشمیری چائے کے دور چلیں گے۔ چائے کی کیتلی آگ پر دھری ہوگی اور ایک کے بعد ایک پیالی اور کی صدائیں بلند ہوں گی۔ آتش دان کے پاس جو کھائی جانے والی چیزہوگی وہ مونگ پھلی ہوگی ۔ کیونکہ اب ہم عام لوگ تو چلغوزہ کھانے سے رہے جو ہزاروں روپوں کے عوض ایک کلو ملتا ہے۔جب چلغوزہ کا ایک دانہ چار روپے میں پڑے تو پھر دس روپے والا کمپنی کا پیک کیا ہوا پیکٹ کیوں نہ لیں اور قہوہ کے ساتھ نوش فرمائیں۔ دھوپ میں فروٹر اور مالٹے چھیل کر کھانے کے دن تو بس دوقدم پر ہیں۔ رضائیاں نکل آئی ہیں لحاف چھا گئے ہیں ۔مگر ان سرد دنوں کی چلنے والی برفانی ہوا¶ں میں ایسے بھی بلند حوصلہ ہیں جن کے مزاج کی گرمی ان کو اپنے میدانی علاقے میں چین لینے نہیں دے گی اور اندر کی گرمی کے اس عالم میں بلکہ یوں کہو سرگرمی کی سرمستی میں سیاحتی مقامات کا رخ کریں گے۔ پہاڑی مقامات اور برفانی علاقے ان کے منظور ِ نظر ہوں گے۔ مگر ہم سے پوچھو تو ہم سے سردی کے ان دنوں میں اپنے شہرِ پشاور سے باہر مزید سرد مقامات پر نہیں جایا جاتا۔مگر دل کی چوٹوں کا کیا کریں گے جو سردی میں زیادہ سخت ہوکردرد کی زیادتی کو دعوت دیتی ہیں ۔درختوں کے جھومنے کے دن ہیں اور پتوں کے جھڑنے کے ایام ہیں ۔پتے درختوں کی لچکیلی شاخوں کو چھوڑ کر زمین بوس ہو رہے ہیں ۔اگلی بہار کے لئے سبزہ زاروں میں جگہیں خالی ہو رہی ہیں۔مگر وہ لوگ جو زرد پتوں کی گر کر دور کہیں جا بسے وہ بھی تو یاد آئیں گے۔ وہ جن کے دم قدم سے بیٹھک آباد تھی وہ اب پھر سے آنے میں تکلف کر کے ہمیشہ کے لئے قدم رنجہ نہیں فرمائیں گے۔جیب بھری ہو تو یہ دن انجوائے کرنے کے دن ہیں ۔یہ وہی سردی ہے نا جس کے لئے سخت گرمیوں میںہم گلگت بلتستان تک ہو آتے ہیں ۔چائناکی سرحد تک چلے جاتے ہیںکشمیر کی وادی ¿ گلگوں دیکھ آتے ہیں ۔برف زاروں میں لوٹتے ہیں۔ کے ون اور کے ٹو کے نیچے سے ہو کر نانگا پربت کی چوٹیاں دیکھتے ہوئے اپنی دستار تک گرا دیتے ہیں۔ اب وہی سردی ہمارے اپنے گھروں میں آن موجود ہوئی ہے تو اس سے لطف کشید کیا جائے۔ اس سے بھرپور لطف لیا جائے۔ سردیوں کی دن اور ٹھنڈ کی راتیں برابر مزے میںاضافہ کر تی ہیں۔زندگی کی سرگرمی دن کے وقت اپنے جوبن پر ہوتی ہے ۔کھانے پینے کو بھی جی کرتا ہے۔کیونکہ گرمی کے ایام میں توکھاپی لو تو ہضم کون کرے ابکائیاں آتی ہیں ۔ مگر اب کے تو خوراک کرنے کو بھی جی کرتا ہے ۔باربی کیو کی محفلیں بار بار سجیں گی۔ تکے کڑاہیاں اڑیں گی۔ مچھلیاں دریا سے باہر آکر جلتے ہوئے کڑاہے میں آن گری ہیں ۔ بازاروں میں مچھلیوں کی دکانوںپر رش ہونے لگا ہے ۔شام ہوتے ہی الا¶ روشن ہیں ۔ وہ جلن وہ تپش اور آگ کی وہ روشنی ہوتی ہے کہ بھلا چنگا آدمی جو ابھی مچھلی کا لطف نہ لینا چاہے وہ بھی مچھلیوں والے جال میں پھنس کر سیخوں پر مچھلیاں چڑھانے کا آرڈر دے ۔مگر ان دنوں کوئلوں کی آگ روشن کرنے والوں کےلئے احتیاط کا درس ہے ۔کیونکہ ان دنوں سوئی گیس جو ہے ہی نہیں اس کے لیک ہونے سے اموات کی شرح زیادہ ہوجاتی ہے ۔پھر اگر کمرے میں گیس جل بھی رہاہے تو بھی خطرناک ہے کیونکہ اس سے کمرے میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے۔ یخنی کے دن آ گئے ہیں۔یخنی کے گڑھے لگا کر بیٹھے ہوئے بھی ویسے ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ان کی بھی بکری ہو رہی ہے اور ساتھ ہشت نگری دروازے کے اندر بھی یخنی خوب بک رہی ہے ۔خنکی کا یہ موسم بہت دلکش ہے ۔ اس میں ہر چیز کھائی جاتی ہے اور کھانے کو جی کرتا ہے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو چیز کھانے کو دل کرے وہ کھابھی لیں۔ جن کی جیبیں بھاری ہیں وہ تو ان قسم کے مشاغل کو بہتر طریقے سے اپنا سکتے ہیں جو نہیں کر سکتے وہ کچھ نہ کریں تو صبر تو کر سکتے ہیں۔صبر بھی تو ویسے نہیں بنا اس کا بھی توکوئی نہ کوئی مقصد ہے ۔