گلگت بلتستان میں انتخا بات کا پر امن انعقاد بہت خوش آئند بات ہے انتخا بی نتا ئج سابقہ تجربات سے ہٹ کر آگئے اس سے پہلے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں وفاقی حکومت کی جما عت کو دو تہا ئی اکثریت مل جا تی تھی یا کم از کم سادہ اکثریت مل جاتی تھی اب کی بار وفاق میں حکومت کرنے والی جما عت کو23میں سے 10نشستوں پر کا میا بی ملی ہے خواتین اور ٹیکنو کریٹس کی مخصوص نشستوں پر انتخا بات کے بعد یہ تعداد 16ہو جا ئیگی حکومت بنا نے کےلئے آزاد اُمید واروں کو ساتھ ملا نا پڑیگا جو زیا دہ مشکل کام نہیں انتخا بی مہم کے دوران ازاد اُمیدواروں کا نعرہ ہی ایسا ہو تا ہے کہ جس کی حکومت بن گئی اس کے ساتھ مل کر حلقے کے عوام کی خد مت کرینگے اب ان کے سامنے حکومت میں شامل ہو کر عوام کی خد مت کرنے کا مر حلہ آگیا ہے اسے کہتے ہیں خدا دے اور بندہ لے ہمارے سامنے 2021کے بلدیا تی انتخا بات آنے والے ہیں پھر 2023ءمیں عام انتخا بات کا مر حلہ آنے کی اُمید ہے اس لئے گلگت بلتستان کا انتخا بی معرکہ ہمارے لئے چند اہم نتا ئج اور اسباق چھوڑ گیا ہے آزاد کشمیر اسمبلی کے آنے والے انتخا بات میں بھی کم و بیش یہی نقشہ پیش نظر ہو گا اس انتخا بی معر کے کا سب سے اہم پہلو الیکشن کمیشن اور مقا می انتظا میہ کی پھر تی ، مستعدی اور بہترین تیار ی ہے سرحد کے اندر بھی اور سر حد پار سے بھی بد امنی کے خطرات مو جو د تھے ان خطرات کے باوجود امن و امان اور صلح و آشتی کے ما حول میں انتخا بات کی تکمیل حکومت کا بڑا کارنامہ ہے اس کےلئے گلگت بلتستان کی نگران حکومت ، وزیر اعلیٰ اور کا بینہ کو اختیار دینے والے حلقے مبارکباد کے مستحق ہیں درست مو قع پر ٹھیک ٹھا ک لو گوں کا انتخا ب یقینا بہت بڑا کام تھا میر افضل خان اور ان کی کا بینہ کا انتخا ب کرنے والوں نے میرٹ کی بنیاد پر عبوری حکومت قائم کر کے سب سے داد و تحسین حا صل کی مو جو دہ انتخا بات میں جو گہما گہمی اور گرم جو شی دیکھنے میں آئی وہ پہلے انتخا بات کے مقا بلے میں دگنی بلکہ چوگنی تھی وجہ یہ تھی کہ پا کستان پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیا دت نے گلگت بلتستان میں ڈیرے ڈال دیئے جو ابی وار کرنے کے لئے وفاقی وزراءعلی امین گنڈ پور اور مراد سعید کو بھی انتخا بی مہم میں بذات خو حصہ لینا پڑا وزیراعظم عمران خا ن نے بھی سکر دو اور گلگت میں بڑے جلسوں سے خطاب کیا جمعیت علما ئے اسلام نے بھی قائدین کا ایک وفد گلگت بلتستان کے دورے پر بھیجا الغرض رونق لگی رہی جب نتیجہ آیا مہمان مقررین کے حصے میں صرف ٹو پیاں اور تا لیاں آگئیں ووٹ اُن ٹوپیوں اور تالیوں کے حساب سے دستیاب نہ ہوئے یہ ووٹر کے شعور اور ان کی آگہی کا پتہ دیتا ہے وہ مہمان کا استقبال کرتے ہیں جلسے کو رونق دیتے ہیں ٹو پیاں پہنا تے ہیں ، تالیاں بجا تے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے تا لیاں بجا تے وقت ان کو پتہ ہوتا ہے کہ صرف جو ش وخروش دکھا نا ہے ووٹ شوٹ نہیں دینا ان نتائج سے ایک بڑا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ نظر یا تی سیا ست دفن ہو چکی ہے پارٹی وابستگی کا قصہ پا رینہ اب کام نہیں دیتا انتخا بی معر کے میں تیل دیکھا جا تا ہے تیل کی دھا ر دیکھی جا تی ہے اُمید وار اگر سرما یہ دار ہے تو اس کی جیت کے امکا نات زیا دہ ہیں بشر طیکہ اس کا مد مقا بل زیا دہ سر ما یہ دار نہ ہو انتخا بی معرکہ سر کر نا کسی سیا سی کار کن یا نظر یاتی سیاستدان کا کام نہیں اُمیدوار اپنے پلے سے خر چ کر نے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو با ہر سے فنا نسر یا سپانسر تلاش کر ے محتاط اندا زے کے مطا بق اسمبلی کی ایک سیٹ 15کروڑ روپے سے کم میں ہا تھ نہیں آتی ایک امید وار دو حلقوں سے کا میاب ہوا ہے بعض امیدوار تیسری اور چوتھی بار بھی کامیاب ہوئے ہیں ایک پشتو مقو لے کا تر جمہ ہے جتنا گُڑ ڈالو گے اتنا میٹھا ہو گا الیکشن میں سر مایے کا بے دریغ استعمال ملک کے اندر جمہوری فضا کےلئے ، سیاسی ارتقاءکے لئے ،شہری حقوق کی پا سداری کے لئے نیک فال ہر گز نہیں اس رجحا ن سے بے لو ث خد مت کی نفی ہو تی ہے خد مت خلق کا جذ بہ ختم ہو جا تا ہے ، جمہوری جد و جہد کو غلط ڈگر پر ڈالا جا تا ہے عوام اور حکمرا نوں کے درمیان فاصلے بڑھ جا تے ہیں ہمیں آگے بڑھنے سے پہلے ان نتائج سے سبق لینا چاہئے اور پر امن انتخا بات کے لئے جی بی کی عبوری حکومت کو داد دینی چاہئے۔ جس نے ناموافق حالات اور موسم کے باوجود پرامن انتخابات منعقد کرکے یقینا اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اب یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کی رائے کو اہمیت دیں اور انہوں نے ووٹ کی صورت میں جو فیصلہ کیا ہے اسے تسلیم کیا جائے اگر ماضی کی طرح انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور ایک دوسرے پر الزامات دھرنے کا سلسلہ جاری رہے تو اس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔