پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کرکٹ مقابلوں کے پانچویں دور (سیزن فائیو) کا سہرا ’کراچی کنگز‘ کے سر سج چکا ہے اور اِس غیرمعمولی‘ غیریقینی اور غیرمتوقع کامیابی کو دیکھنے کے خواہشمند شائقین کرکٹ کراچی اور لاہور کا فائنل دیکھنا چاہتے تھے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی فائنل میں وہ سنسنی خیز مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملا کہ جو کوالیفائر اور ایلی منیٹرز میں نظر آتا ہے۔ دوہزارسولہ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف چھ وکٹوں کی کامیابی سے بات کا آغاز کیا جائے اور گزشتہ برس (دوہزاراُنیس) میں کوئٹہ کے صرف ایک سو انتالیس رنز کا ہدف حاصل کرنے جیسی کارکردگی دیکھی جائے تو پی ایس ایل فائنل ہمیشہ پھیکا ہی ملے گا حالانکہ فائنل سے پہلے کوالیفائر اور ایلی منیٹرز میں ہیجان انگیز مقابلے ہوتے ہیں‘ اتنے کہ گویا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے‘ ناظرین سانس لینا اور آنکھیں جھپکنا تک بھول جاتے ہیں لیکن فائنل میں تمام تر توقعات اور خدشات کے باوجود کچھ خاص نہیں ہوتا۔ پی ایس ایل سیزن فائیو کا فائنل بھی کچھ ایسا بھی بے ذائقہ ثابت ہوا اور پورے ٹورنامنٹ کا مزا گویا ’کرکرا‘ کر گیا۔ کرکٹ کا کھیل اطمینان سے دیکھنے لائق نہیں ہوتا اور پھر فائنل مقابلے کی بات کی جائے تو ایک طرح کا دباو¿ بنا رہتا ہے بالخصوص جب مقابلہ روایتی حریفوں کے درمیان ہو کہ جن میں سے دونوں کے پرستاروں کا یہی کہنا تھا کہ ’ان سے مت ہارنا‘ اور اس میں ایسی وکٹ کہ جس نے دباو¿ کو مزید بڑھا دیا کیونکہ اس پچ پر پہلے لاہور کھیلا‘ اس لئے زیادہ بوجھ پڑگیا۔ بہرحال فائنل میں کراچی کنگز کی کامیابی کی بڑی وجہ بابر اعظم تھے۔ بہترین وقت پر بہترین فارم میں موجود بابر اعظم نے کوالیفائر میں بھی مشکل وقت پر پینسٹھ رنز کی اننگز کھیلی تھی اور فائنل میں بھی ناقابلِ شکست تریسٹھ رنز بنائے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ میچ میں فتح اور شکست میں اصل فرق بابر کی اننگز کا تھا۔ بابر اعظم نے وہ غلطیاں بھی نہیں دہرائیں‘ جو ملتان سلطانز کے خلاف کوالیفائر میں ہوئی تھیں۔ اس مرتبہ وہ آخر تک ڈٹے رہے اور مقابلے کو اختتام تک پہنچا کر ہی دم لیا لیکن یہ دیکھنا بہت بورنگ رہا۔ کوالیفائر میں بابراعظم کے آخری لمحے پر آو¿ٹ ہوجانے کی وجہ سے میچ سپر اوور میں چلا گیا تھا اور کراچی کو ایک سیدھی سادی نظر آنے والی کامیابی بعد میں بڑی مشکل سے ملی تھی۔ بہرحال بابر اعظم نے پی ایس ایل سیزن فائیو میں بارہ میچوں میں سب سے زیادہ اُنسٹھ کے اوسط کے ساتھ 473رنز بنائے اور سب سے زیادہ نصف سنچریاں بھی اِسی ٹیم نے سکور کیں۔ اِسی وجہ سے وہ فائنل مقابلے کے بھی بہترین کھلاڑی قرار پائے اور ٹورنامنٹ کے بھی لیکن بابر اعظم کی اننگز کے ساتھ کراچی کی کامیابی کی کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔ ایک تو باو¿لرز کا پچ کے مطابق بہترین لائن پر باو¿لنگ کرنا تھا۔ خاص طور پر پاور پلے کے خاتمے کے بعد جب لاہور اپنی اننگز کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ انہوں نے رنز کو روکا‘ جس سے لاہور پر دباو¿ بڑھتا چلا گیا اور اسی دباو¿ میں کھلاڑی یکے بعد دیگرے آو¿ٹ ہوتے چلے گئے رواں سال پی ایس ایل میں کراچی کے کوچ ڈین جونز تھے‘ جو اس سے پہلے چار سال تک اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ رہے۔ جب کراچی کنگز نے پی ایس ایل فائیو کے لئے مہم کا آغاز کیا تو ’ڈینو‘ ان کے ساتھ تھے لیکن پھر کورونا وائرس کی وجہ سے مقابلے مو¿خر کر دیئے گئے۔ چوبیس ستمبر کے روز اچانک خبر ملی کہ ڈین جونز اب اس دنیا میں نہیں رہے اور پی ایس ایل کے بقیہ میچوں کے لئے جب سب دوبارہ جمع ہوئے تو پہلا کام ڈین جونز کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ کراچی کی کامیابی کے ساتھ پانچ سیزنز میں یہ تیسرا موقع تھا‘ جس میں ڈین جونز کی ٹیم نے ٹرافی اٹھائی اور یقینا ’ڈی جونز‘ کی یاد ’پی ایس ایل‘ کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گی۔