عام خیال یہ ہے کہ جو بائیڈن تین نومبر کو امریکہ کے صدر منتخب ہو چکے ہیں لیکن امریکہ کا صدارتی انتخاب اتنا سادہ نہیں امریکی صدر کے حتمی انتخاب کا سلسلہ ابھی نامکمل ہے۔ امریکہ کی 244 سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ٹرمپ جیسے کسی صدر نے الیکشن ہارنے کے بعد نتائج نہ ماننے اور وائٹ ہاو¿س نہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہو۔ امریکی آئین بھی اس صورتحال کےلئے کوئی واضح راہنمائی فراہم نہیں کرتا۔ امریکی آئین صرف یہی کہتا ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد آنے والے بیس جنوری کو موجودہ صدر کی مدت پوری ہوتی ہے اور نیا منتخب صدر حلف اٹھاکر آغاز کرتا ہے۔ 20 ویں ترمیم کے مطابق ”صدر اور نائب صدر کی مدت 20 جنوری کے دن دوپہر کو ختم ہوگی اور ان کے جانشین کی مدت کا آغاز ہوگا۔“عام طور پر امریکی صدر کے انتخاب کا طریقہ یہ ہے کہ مختلف پارٹیوں سے یا آزاد صدارتی امیدوار سامنے آتے ہیں جو اپنی کمپین چلاتے ہیں۔ تین نومبر کو صدر کے انتخاب کےلئے عوامی ووٹنگ ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہر ریاست گنتی کرکے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کا اعلان کرتی ہے۔ اس کے بعد آٹھ دسمبر تک ہر ریاست کو صدارتی انتخابی کالج کےلئے اپنے نمائندے یعنی انتخاب کنندگان منتخب کرنا اور ان کا متعلقہ گورنر کے دستخط سے سرکاری اعلان کرنا ہوتا ہے۔ عوامی ووٹنگ میں ہر ریاست میں کسی امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس ریاست سے کسی امیدوار کو صدارتی انتخابی کالج کےلئے کتنے ارکان یا انتخاب کنندگان ملیں گے جو انتخابی کالج کی ووٹنگ میں عموماً اس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں لیکن مخالف امیدوار کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔ انتخابی کالج کے ان نامزد ارکان کو چودہ دسمبر کو باضابطہ طور پر اپنا ووٹ ڈالنے کےلئے بلایا جائے گا۔ اس کے بعد نئی منتخب کانگریس تین جنوری کو حلف اٹھاتی ہے اور وہ 6 جنوری کو انتخابی کالج کے نتائج پر غور کرتی اور تصدیق کرتی ہے۔ اگر کوئی امیدوار انتخابی کالج میں جیت جاتا ہے اور اس کی کانگریس سے تصدیق ہو جاتی ہے تو وہ 20 جنوری کو دوپہر کے وقت حلف اٹھاکر صدر بن جاتا ہے۔ بائیڈن عوامی ووٹ جیت چکے ہیں تاہم چونکہ ٹرمپ نے مشی گن اور پنسلوانیا میں نتائج کو چیلنج کیا ہے اور وہ وسکونسن میں بھی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو ان اقدامات کی وجہ سے ریاستی اسمبلیوں سے عوامی انتخاب کے نتائج کی تصدیق اور انتخاب کنندگان کی تقرری اور کانگریس سے انتخابی کالج کے نتائج کی باضابطہ تصدیق میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ اگر کاﺅنٹیز، ریاستوں، انتخابی کالج یا کانگریس میں نتیجہ متنازعہ ہوجاتا ہے اور قانونی چارہ جوئی اور دوبارہ گنتی کا مسئلہ برقرار رہتا ہے تو صدر ٹرمپ یا جوزف آر بائیڈین جونیئر کو فاتح نامزد کرنے میں چند ہفتوں کی تاخیر ہوسکتی ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ معاملہ اگلے سال تک ملتوی ہو جائے اور انتقال اقتدار مشکل ہو جائے گا۔کچھ ریاستوں جیسے فلوریڈا، اوہائیو اور پنسلوانیا میں اگر حاصل کردہ ووٹوں میں فرق کم ہو تو ریاست خودبخود گنتی کا آغاز کرتی ہے۔ آئیووا اور نیواڈا جیسی دوسری ریاستوں میں ، امیدوار مارجن سے قطع نظر دوبارہ گنتی کی درخواست کرسکتے ہیں۔ہر ریاست میں مقننہ انتخاب کنندگان کے تقرر کا اختیار رکھتا ہے۔ ریاستوں کو یہ تقرری 8 دسمبر تک کرنی ہے۔ اسے ”سیف ہاربر ڈیڈ لائن“ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد گورنر عوامی اور انتخابی کالج ووٹوں کی تفصیل کے ساتھ ایک سند تیار کرے گا۔ بیشتر ریاستیں ریاست میں عوامی ووٹ کی بنیاد پر اپنے انتخاب کنندگان مقرر کرتی ہیں تاہم وہ عوامی ووٹ سے قطع نظر بھی یہ انتخاب کرسکتی ہیں۔ ایک ریاستی مقننہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ انتخابی نتائج متنازعہ اور غیر قانونی ہیں یا نہیں۔ دوبارہ گنتی اور قانونی چیلنجوں کی وجہ سے کسی ریاست کو آخری تاریخ تک تصدیق اور تقرری کا یہ عمل مکمل کرنے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ صدر ٹرمپ بھی یہی چاہتے ہیں۔متعدد ریاستوں میں گورنر ریاستی مقننہ میں اکثریتی پارٹی کی بجائے مخالف پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جہاں وہ اپنے ارکان بھی نامزد کرسکتا ہے۔ اس لیے انتخاب کنندگان کی دہری فہرستوں کا امکان موجود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ریاست میں دونوں گروپ ووٹ ڈالنے کےلئے اجلاس بلائیں پھر کانگریس کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کس انتخاب کنندگان فہرست اور اس کے نتیجے کو قبول کرنا ہے اور کس کو نہیں۔نومنتخب کانگریس 6 جنوری کو ہر ریاست کے انتخابی ووٹوں کی گنتی کرتی ہے۔ کسی امیدوار کو جیتنے کے لئے اکثریت کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تعداد 270 ہے۔کانگریس کے ممبر انتخابی ووٹوں کو چیلنج یا مسترد کرسکتے ہیں۔اگر گنتی سے پتہ چلتا ہے کہ کسی امیدوار کو اکثریت نہیں ملی تو ایوان نمائندگان صدر منتخب کرنے کےلئے ووٹ دیتا ہے۔ ہر ریاست کے وفد کو صرف ایک ووٹ ملتا ہے اس لیے امیدوار کو جیتنے کے لئے 26 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔1963 کے صدارتی منتقلی ایکٹ نامی قانون کے تحت ایک وفاقی ادارہ امریکی جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن جو وفاقی عمارتوں کا انتظام کرتا ہے انتخابات کے واضح فاتح کا اعلان کرتا ہے۔ جس کے بعد آنے والی صدر کی ٹیم بریفنگ حاصل کرسکتی ہے، فنڈز کی معلومات مانگ سکتی ہے اور سرکاری ایجنسیوں کا دورہ کرنے کےلئے نمائندے بھیج سکتی ہے۔ جی ایس اے کو خط بھیجے جارہے ہیں کہ وہ جو بائیڈن کی کامیابی کا اعلان کرے۔ پچھلے دنوں جی ایس اے بولی کہ آئین میں طے شدہ عمل کی بنیاد پر فاتح کے واضح ہونے کے بعد وہ کامیاب امیدوار کا اعلان کردے گی۔بظاہر یہ انتخاب اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک کہ ایک ہارنے والا امیدوار شکست تسلیم نہیں کرتا اور اپنے حریف کو مبارکباد نہیں دیتا۔ٹرمپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو یا ناکام لیکن ایک بات یقینی ہے کہ ان کی اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار امریکی جمہوریت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔امریکی اب تک چیزوں کو بہت آسان لے رہے تھے۔ وہ فرض کرتے تھے کہ وہ انتخابات میں اپنی رائے دیتے ہیں اور اکثریتی ووٹ لینے والا صدر منتخب ہوجاتا ہے۔ ہارنے والا جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے، اسے اور اس کی ٹرانزیشن ٹیم کو بریفنگز اور جان پہچان کےلئے مختلف محکموں کے ساتھ بیٹھنے کی سہولت دیتا ہے اور نئے صدر کی حلف برداری میں اس کے پیچھے بیٹھتا ہے۔ ٹرمپ نے یہ سب کچھ تبدیل کردیا ہے۔ ٹرمپ کے امریکہ میں مخالف کی جیت ماننے اور اقتدار کی پرامن منتقلی کی روایت نہیں۔ یہاں سچ وہی ہے جو ٹرمپ کہتے ہیں باقی سب جعلی ہیں۔