گوشہ¿ فراغت

 آدمی اس جدید زمانے میں یہاں اتنا مصروف ہو چکا ہے کہ دوسروں کو کیا ٹائم دے گا خود اس کے پاس اپنے لئے بھی وقت نہیں رہا۔ دن چڑھتا ہے تو سو بکھیڑے ہیں جو بندے کو گھیر گھار کے کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری جانب لئے گھومتے پھرتے ہیں۔یوں کہ کبھی تو صبح ناشتہ بھی نہ کرو۔ کیونکہ دیر ہوجانے کے ڈر سے یونہی سوکھے منہ گھر سے نکل جانا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ دوپہر کھانے کا بھی پتا نہیں ہوتا۔ شام کو اگر وقت ملا تو بندہ گھر آکر یا کہیں باہر ہی کچھ کھا پی لیتا ہے۔ اس میں اختلاف کی گنجائش اس لئے ہے کہ بندہ بندہ کافرق ہے ۔پھر جاب کی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔پھر جو کام سر پہ ہوتے ہیں وہ ہر آدمی کے مختلف ہوتے ہیں۔ باہر ملک اتنے ترقی کر چکے ہیں ان کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا کہ وہ خود کو ٹائم دیں ۔گھر والوں ہی کےلئے ان کے پاس وقت نہیں بچتا۔ کیونکہ وہاںتو گھر میں ہر فرد باہر جا کر کام کرتا ہے ۔اگر نہیں کرے گا تو وہاں کی زندگی بہت مہنگی ہے ۔ایک آدمی کے کام کاج سے گھر کا کچن اور دوسری ذمہ داریوں کو نبھایا نہیں جا سکتا ۔وہی حال آج کل ہمارے معاشرے کابھی ہے ۔ہماری ترقی کاگراف جوں جوں اوپر جا رہاہے ہم اتنی ہی تیزی کے ساتھ مصروف ہوتے جارہے ہیں۔اقبال کا شعر یاد آیا” نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ¿ فراغت ۔یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ “۔ یہ اقبال کا سو سال پہلے کا شعر ہے ۔جب ہر طرف فراغت ہی فراغت تھی ۔ موجودہ نئے دور کے کرشمے نہ تھے۔ اگرماضی میں ایک حساس انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے تو آج کے اس مصروف ترین دور میں احساس رکھنے والوں کے کیا محسوسات ہوں گے۔بندہ کبھی اپنے آپ کو بھی وقت دے ۔ایسا تو اس زمانے کے معاشرے میں ناممکن ہوتا جا رہاہے ۔بس اگر رات کو سو گئے تو یہی فراغت ہے وگرنہ جب صبح سمے خورشید کف کے بیچ لئے جام آگیا اور آنکھ کھل گئی تووہی گذشتہ سے پیوستہ مسائل پھر سے جنم لیں گے۔ پھر آدمی اس کلبلاتی ہوئی دنیا میں ان ڈستے ہوئے سانپوں کی نذر ہو جائے گا ۔کہیں میٹنگ ہے کہیں کسی سے ملنے جاناہے کہیں کسی نے ملنے کے لئے آناہے کہیں شادی بیاہ ہیں ۔ پھران دنوں تو شادیاں مصروفیت میں ہزار گنا اضافہ کر چکی ہےں۔ شادی اگر دوستوں یاروں میں ہو تو الگ مصروفیت اور پھر اگر رشتہ داروں میں ہو تو اور زیادہ الجھنیں پھر اگر شادی اپنے ہی گھر میں ہو تو بس بندہ گیا کام سے ۔ سو دھندے بکھیڑے ہیں جو صبح تا شام نپٹانے ہیں۔ جب تلک کہ شادی کے اختتام کا بگل نہ بجے۔دراصل گا¶ں وغیرہ کی زندگی بھی تو آج کل مصروفیت کی نذر ہو چکی ہے ۔زمانے نے ایسی کروٹ لی ہے کہ اب گا¶ں کے باشندوں کو بھی یہی شکایت ہے ۔مگر پھر بھی فارغ لوگ تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ۔ فراغت سے رہنے والے خاص شہر کے اندر بھی ہیں او رباہر بھی ہیں ۔ مگر مصروفیت کا عمل زیادہ ہے ۔کوئی پڑھنے میں مصروف ہے کوئی پڑھانے میں جُتا ہوا ہے کوئی کس کام میں اور کوئی کس روزگار سے وابستہ ہے۔بس اگر ہفتہ وار چھٹی آ جائے تو سمجھو کہ یہ ایک عیش ہے۔وہ عیش بھی عارضی ہوتی ہے ۔کیونکہ چھٹی سے ایک دن پہلے والا دن مزے کا ہوتا ہے۔ جب ہم یہ سوچ کر مزا لیتے ہیں کہ کل چھٹی ہے ۔ہاںاگر کل کاچھٹی کا دن آگیا تو پھر اس دن چھٹی کا مزہ غارت ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر چھٹی والے دن بھی کام نکل آئیں تو پھر انسان مشین بن کر رہ جاتا ہے ۔جس کے نہ تو احساسات ہوتے ہیں اور نہ جذبات ہوتے ہیں۔اس بات کو باشعور قومیں زیادہ بہتر سمجھتی ہیں کہ بندہ کو ہفتے کے ساتوں دن کام نہیںکرنا چاہئے ۔ اسے فراغت حاصل کرکے ایک دن آرام بھی کرنا چاہئے۔ کیونکہ جس طرح کمپیوٹر کو ریفریش نہ کریں تو وہ مسئلے پیدا کر تاہے اسی طرح آدمی کا ذہن بھی چھٹی نہ کرنے سے بیمار ہو جاتاہے۔ہمارے ہاں بھی دفاتر میں ہفتہ میں ایک کے بجائے دو چھٹیاں ہیں۔ اچھی بات ہو تو اس کی نقل کرنا برا تو نہیں ہے ۔پھر دوسری بات یہ کہ باہر کے معاشرے اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ وہاں کے لوگ دو چھٹیوں کے باوجود مشین بن گئے ہیں۔ ان کے مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہو چکا ہے ۔اب کہتے ہیں ہفتہ میں تین چھٹیا ںہونی چاہئیں۔ جمعہ ہفتہ اور اتوار۔ چین میں تو دفتروںمیں دوپہر کو آدھ گھنٹہ سونے کی سخت ترین ہدایات ہیں ۔تاکہ کام کرنے والے ریفریش ہو کر زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کے شعبے میںصرف اتوار کی چھٹی ہے ۔یہ لوگ اتوار کے ساتھ ہفتہ کو چھٹی کر کے عیش کرتے ہیں۔وہ جن کو ہفتہ اتوار چھٹی ہے وہ جمعہ کو ملا کر تین دن کی عیش کے مرتکب ہو تے ہیں۔پھر ہمارے ہاں اگر جمعہ کو بھی چھٹی میں شامل کر دیاگیا تو بعض ناکارہ بھائی بند تو جمعرات کو چھٹی کی درخواست دے کر شہر سے فرار ہو کر گلگت بلتستان او رکاغان ناران نتھیاگلی مری وغیرہ کے لئے بوریا بستر باندھ لیں گے ۔پھرواپس آتے ہوئے پیر کی درخواست بھی دفتر میںساتھی کو دے آئیں گے کہ اگر نہ آیا ایس ایم ایس کر دوں گا۔ پھردرخواست صاحب کو پیش کردینا ۔مگر دیکھنا اگر ضرورت پڑے تو وگرنہ چھوڑ دینا ۔