سیا سی شعور کا امتحان

انتخا بات کو سیا سی شعور کا امتحا ن بھی کہا جا تا ہے سیا سی شعور پختہ ہو تو عوام اچھے نمائندوں کا انتخا ب کر تے ہیں سیا سی شعور پختہ نہ ہو تو عوام اچھے نما ئندوں کے انتخا ب میں غلطی کر جا تے ہیں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں جب ووٹ ہوتے ہیں لو گ وفاق میں حکمرا نی کر نے والی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں ان کے نما ئندے حکومت کا حصہ بن جا تے ہیں وزا رتیں لے لیتے ہیں اور فوائد سمیٹتے ہیں ان کے مقا بلے میں کوہستان ، دیر اور چترال میں اکثر ایسی پارٹیوں کے نما ئندے کا میاب ہوتے ہیں جن کی حکومت نہیں آتی اور وہ 5سال حزب اختلاف میں خوار وزار ہو کے پھر تے ہیں کہا جا تا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیا سی شعور کی پختگی ہے کو ہستان دیر اور چترال جیسے علا قوں میں نہیں اس بحث کے کئی پہلو ہیں سب سے پہلے یہ بات قابل غور ہے کہ کو ہستان دیر اور چترال میں بھی آزاد کشمیر یا گلگت بلتستان کی طرح وفاقی حکومت قائم ہو نے کے ڈھا ئی سال بعد انتخا بات ہو نگے تو ان علاقوں کے لو گ بھی سیا سی شعور کا مظا ہر ہ کر کے حکومتی پارٹی کو ووٹ دے دیںگے لیکن یہاں ووٹ کا وقت مختلف ہوتا ہے ووٹ والے دن پتہ نہیں لگتا کہ وفاق اور صو بوں میں کس کی حکومت آئیگی اور کون حکومت میں شامل ہوگا دوسری بات یہ ہے کہ ڈھا ئی سال بعد جب وفاق میں کسی دوسری پارٹی کی حکومت آتی ہے تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے سارے فنڈ ، سارے منصوبے روک لئے جاتے ہیں تو وہ لو گ اپنی قسمت کو رو رہے ہوتے ہیں اس لئے حکومتی پارٹی کو ووٹ دینا ہمیشہ اُن کے حق میں بہتر ثا بت نہیں ہوتا بسا اوقات اُن کو اپنے فیصلے پر ندا مت بھی ہو تی ہے 3سال پہلے گلگت میں مسلم لیگ کی حکومت نے تین سب ڈویژنوں کو ضلع بنا نے کا اعلان کیا تھا 2018میں عمران خان کی حکومت آگئی یوں اُن کا سیا سی شعور کسی کام نہیں آیا مگر ہمیں اس بات کو ملک کے مجمو عی کلچر کے تنا ظر میں دیکھنا چاہئے اس میں دیر ، کوہستان ،لاہور ، کر اچی اور گلگت یا میر پور کی کوئی تخصیص نہیں ہمارا ملکی سیا سی کلچر جاگیر دارانہ نظام کے گرد گھومتا ہے جا گیر دارانہ نظام میں ایک طاقتور شخص یا جا گیر کے ذریعے یا سر مایے کے ذریعے سب پر حا وی ہو تا ہے‘ ہمارے سیا سی کلچر کی اصلاح کےلئے سرداری نظام ، جا گیر داری نظام اور سر ما یہ دارانہ طرز سیا ست کو بدلنا ہو گا مو جو دہ حا لات میں صرف کوہستان ، دیر اور چترال کا ووٹر ہی دھوکا نہیں کھا تا لاہور ، گجرات ، ملتان اور کراچی کا پڑھا لکھا ووٹر بھی فریب کا شکار ہو جاتاہے ۔کچھ پارٹیوںنے کراچی اور حیدر آباد کا جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے ان کو با شعور لو گوں نے بار بار ووٹ دیا اور ہر بار دھوکا ہی کھا یا اس کے ساتھ جڑا ہوا مسئلہ ہمارے انتخا بی نظام اور انتخا بی قوانین کا بھی ہے دنیا میں ایسے بے شمار جمہور ی مما لک ہیں جہاں 51فیصدسے کم ووٹ لینے والا نما ئندہ منتخب نہیں ہو سکتا جبکہ پا کستان کے انتخا بی نظام میں 10فیصد سے کم ووٹ لینے والا بھی منتخب ہو جا تا ہے اگر حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد 2لاکھ ہے اُمید واروں کی تعداد 18ہے تو 20ہزار ووٹ لینے والا کا میاب ہو تا ہے گو یا ایک لاکھ80ہزار نے اس کو مسترد کر دیا یعنی 90فیصد سے زیا دہ لوگ اُس کے خلاف تھے اب یہ شخص اگلے 5سا لوں تک سب کے سینے پر مونگ دلتا رہے گا جو کسی بھی طرح جمہوریت کی روح سے مطا بقت نہیں رکھتا اور کسی بھی طرح جمہوری اصولوں پر درست نہیں اتر تا لو گوں کا سیا سی شعور بیدار کرنے کےلئے ضروری ہے کہ انتخا بی قوانین میں اصلا حا ت کے ذریعے ایک حلقے میں اُمیدوار وں کی تعداد کو محدود کیا جائے زیا دہ سے زیا دہ تین اُمیدواروں کی اجا زت ہو اور کسی ایک کو 51فیصد سے زیا دہ ووٹ نہ پڑنے کی صورت میں رن آف الیکشن کی گنجا ئش رکھی جائے جس میں تیسرا بندہ بیٹھ جائے گا پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کے درمیان مقابلہ ہو گا 2001ءمیں لو کل باڈیز کے انتخا بات کےلئے ضلع نا ظم کا انتخاب اس طریقے پر ہوا تھا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے قانون میں اس کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے ۔