فریبی مرض

کورونا وبا سے متعلق ایک عالمی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایک چمچ کے برابر ”کورونا نامی قبیلے سے تعلق رکھنے والے نئے جرثومے (وائرس)“نے (اُنیس نومبر تک) عالمی سطح پر 5 کروڑ 59لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا جبکہ اِس سے مجموعی اور معلوم ہلاکتوں کی تعداد 13 لاکھ 44 ہزار سے زیادہ ہیں۔ یعنی ایک معمولی سے وائرس نے انسانوں کی تہذیب‘ رہن سہن‘ معاشرت اور معاشی سرگرمیوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب یہ بات خواب جیسی ہی لگتی ہے کہ کبھی حالات معمول پر آئیں گے اور کبھی زندگی پھر سے اُسی طرح رواں دواں ہوگی جیسی دسمبر 2019ءسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ماضی میں ہم نے ایسی کئی وبائیں دیکھی ہیں تاہم ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ کسی نئے وائرس کہ جس کی علامات عمومی قسم کے زکام (فلو) سے ملتی جلتی ہیں کی وجہ سے پوری دنیا کا نظام مفلوج اور معطل ہو کر رہ گیا ہو۔ بنیادی ضرورت اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک جرثومہ اس قدر طاقتور اور اِس کے نشانے پر انسان خود کو اس قدر بے بس محسوس کر رہے ہیں؟ کورونا وائرس میں ایسا کیا خاص ہے کہ یہ انسانی جسم‘ زندگی اور بقا کے لئے خطرہ بن چکا ہے؟ اب تک کی تحقیق اور متعلقہ شعبے کے طبی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ کورونا وائرس فریبی ہے یہ ابتدائی مراحل میں جسم کے مدافعتی نظام کو غلط معلومات فراہم کرتا ہے اور جسم کے اندر اپنی افزائش کرتے ہوئے بہت بڑی تعداد میں پھیپھڑوں اور سانس کی نالی میں گردش کرنے لگتا ہے لیکن اِس کے باوجود انسانی جسم کا دفاعی نظام یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے جبکہ جس دراندازی کرنے والے دشمن کے خلاف اُسے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا وہ نہیں کر پاتا۔ اگرچہ انسانی جان کو خطرہ ہے لیکن کورونا وائرس اپنی ساخت اور خصوصیات کے لحاظ سے انتہائی کمال کا وائرس ہے کہ یہ انسانی ناک کو فیکٹری میں بدل دیتا ہے اور وہاں چھپ کر اپنی افزائش کرتا ہے لیکن انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو اِس کی خبر نہیں ہوتی۔ اگر کسی طبی تجزیہ گاہ میں بیمار خلیوں کو دیکھا جائے تو یہ بیمار نظر نہیں آئیں گے لیکن اس کے باوجود اگر آپ اپنا ٹیسٹ کروائیں گے تو یہ خلیے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہوں گے کہ انہیں انفیکشن ہے اور یہ صرف ایک ’جوکر کارڈ‘ ہے جو یہ وائرس کھیل سکتا ہے۔ انسانی جسم میں وائرس کی تعداد بیماری محسوس کرنے سے ایک دن پہلے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے لیکن اس وقت سے پہلے ایک ہفتہ لگ جاتا ہے جب کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کو علاج کے لئے کسی ہسپتال لے جانے کی نوبت آتی ہے یہ وائرس اپنے پہلے شکار کے مرنے یا بیمار نظر آنے سے کافی پہلے دوسرے شکار کی جانب روانہ ہو جاتا ہے دوسرے الفاظ میں ’وائرس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ متاثرہ شخص مرتا ہے یا زندہ رہتا ہے کیونکہ یہ ایک قسم کا حملہ کر کے فرار ہو جاتا ہے۔ سال 2002ءکے سارس نامی وائرس کورونا سے بالکل مختلف ہے کیونکہ سارس وائرس سے متاثر ہونے والا خود بہت زیادہ بیمار محسوس کرنے لگتا ہے‘ جس کی وجہ سے اُسے الگ تھلگ کرنا آسان ہو جاتا ہے تاہم بھلے ہی کورونا انسانی جسم کو دھوکہ دے لیکن یہ انسانی عقل کو دھوکہ نہیں دے سکتا‘اب تک چار قسم کے کورونا وائرس دریافت ہوئے ہیں جو انسانی جسم کو متاثر کرتے ہیں اور اِن سے متاثر ہونے والوں کو سردی لگنے جیسی عام علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ دسمبر دوہزار اُنیس سے نومبر دوہزار بیس تک دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی چار اقسام میں ایک قسم چیچک کے وائرس سے ملتی جلتی ہے جو امریکہ کے کچھ حصوں میں پائی گئی ہے ‘دانشمندی اِسی میں ہے کہ کسی جرثومے کا شکار بننے کی بجائے اِنسان اپنی عقل سے اِس کا مقابلہ کریں اور فتحیاب ہوں۔