امریکہ کی جمہوریت اس روایت پر قائم ہے کہ یہاں انتخابات کے بعد بیس جنوری کو اقتدار ایک صدر سے نومنتخب صدر کو پ±رامن انداز میں منتقل ہوتا رہتا ہے‘ یہاں صدارتی انتخابات میں امیدواروں کو دھاندلی کی شکایتیں پہلے بھی رہی ہیں اور اس پر عدالتوں میں مقدمے بھی چلتے رہے ہیں مگر یہ پہلی بار نظر آرہا ہے کہ واضح اکثریت سے شکست کے بعد بھی صدر ٹرمپ اپنی ہار ماننے اور جو بائیڈن کو پرامن انتقالِ اقتدار سے انکار کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ یہ سب کچھ کیوں کررہے ہیں اور وہ اپنے مقصد کےلئے کہاں تک جا سکتے ہیں؟صدر ٹرمپ کے طرزعمل کی متوقع نوعیتیں اور ہر ایک کے ممکنہ نتائج یہ ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اپنی شکی اور نرگسیت زدہ فطرت اور چند ساتھیوں کے مسلسل پروپیگنڈے کے باعث صدر ٹرمپ اخلاص سے سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ منظم دھاندلی ہوئی ہے اس لئے یہ دامے درمے سخنے اپنی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ بائیڈن کی”جعلی “فتح کو شکست میں تبدیل کریں۔ چنانچہ یہ آخر تک لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ جیت جائیں یا پھر انہیں بزور وائٹ ہاو¿س سے نکال دیا جائے۔دوسری نوعیت اور امکان یہ ہے کہ ان کو پتہ ہے کہ جو بائیڈن انتخاب جیت چکے ہیں اور میں ہار چکا ہوں مگر یہ انجان بنے خود کو برحق ثابت کرنے اور ان کی حقیقی فتح کو جعلی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ پہلے سے بھی کہہ رہے تھے کہ صدارتی انتخاب اگر بائیڈن جیت گئے اور میں ہارگیا تو یہ دھاندلی کا نتیجہ ہوگا۔ انہیں اپنے دوبارہ انتخاب کے برعکس کوئی عوامی فیصلہ قبول نہیں تھا۔ انہوں نے انتخاب ہارنے کی صورت میں اقتدار کی پرامن منتقلی کی ضمانت دینے سے بھی انکار کیا ہوا تھا۔ چنانچہ اب بائیڈن کی واضح فتح کو ہار میں بدلنے کےلئے دائیں بازو کی میڈیا، وکیلوں اور عدالتی مقدمات سے بھی کام لے رہے ہیں۔ وہ طاقتور اداروں پر کنٹرول کے لئے ان کے سربراہ تبدیل کرکے اپنی مرضی کے سربراہ لا رہے ہیں جیسے سیکرٹری دفاع مارک ایسفر کو برخاست کیا اور اپنے معتمد کو اس کی جگہ لگایا۔ عوامی احتجاج بھی جاری رکھا ہے۔ کاﺅنٹی و ریاستی سطحوں پر عدالتوں کے ذریعے ووٹوں کی کہیں دوبارہ گنتی کروانے اور کہیں رکوانے یا ان میں تاخیر لانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ وہ صدر کے انتخابی کالج کےلئے اہم ریاستوں سے عوامی ووٹوں کے تناسب کے بجائے اپنی مرضی کے انتخاب کنندگان بھیجنے پر بھی کام کر رہے ہیں۔ وہ کانگریس کے ذریعے اپنی فتح یقینی بنانے ورنہ پھر انتخاب کو ہی کالعدم قرار دینے پر بھی تلے ہوئے ہیں۔ اور اگر یہ سب حربے ناکام ہوجائیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بائیڈن کو اقتدار کی منتقلی روکنے کےلئے ایمرجنسی نافذ کریں چاہے اس کےلئے اندرونِ ملک ہنگاموں کے ذریعے حالات خراب کرنے پڑیں یا کسی دوسرے ملک کے خلاف فوجی کاروائی کرنی پڑے۔ چونکہ انہیں خدشہ ہے اقتدار سے نکلنے کے بعد ان کے خلاف قانونی کارروائیاں ہوں گی اس لئے اپنی فتح اور دوسری مدتِ صدارت کےلئے یہ ہر حد تک جائیں گے تیسری نوعیت اور امکان یہ ہے کہ ٹرمپ جانتے ہیں کہ وہ تین جنوری کو ہار گئے ہیں اور انہیں لازمی طور پر اب اپنا عہدہ چھوڑنا ہوگا لیکن وہ اپنی سیاسی اور مالی مفاد میں کچھ وقت تک اسی طرح دھاندلی اور دھوکہ دہی کے الزامات لگاتے ہوئے انتخابات کا نتیجہ ماننے سے انکار کرتے رہیں گے اس طرح ایک تو وہ اپنے سات کروڑ سے زیادہ ووٹرز کو مطمئن کرسکیں گے کہ بائیڈن جائز صدر نہیں ہے اور وہ کانگریس میں ریپلکنز کو بھی بائیڈن کے خلاف متحد رکھ سکیں گے۔ وہ اپنے بڑے بڑے قرضوں کی ادائیگی اور نئے کاروبار کےلئے ان سے چندے بھی حاصل کرسکیں گے، اگلے صدارتی انتخابات کےلئے اپنی پوزیشن بھی بہتر کرلیں گے اور اتنا عوامی دباو¿ قائم کرلیں گے کہ بائیڈن اور امریکی ادارے اس کے خلاف ایکشن لینے سے باز رہیں۔ مگر بالآخر وہ اپنی شکست مان لیں گے اور امریکہ چھوڑ کر کسی پرفضا مقام پر رہائش اختیار کرلیں گے۔ ان کے طرزعمل کی چوتھی نوعیت یہ ہے کہ ٹرمپ یہ سب کچھ کسی منصوبے نہیں بلکہ صرف اپنی انا کی تسکین کےلئے کر رہے ہیں۔ ایک امکانی صورت حال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے حامی ملک کے طول و عرض میں احتجاج اور دھرنے جبکہ دائیں بازو اور سفید فام نسلی برتری کے علمبردار ان کے حامی شدت پسند، جن میں کچھ مسلح گروہ بھی شامل ہیں، پرتشدد کاروائیاں شروع کردیں گے۔ ان کے جواب میں ریاستی یا وفاقی ادارے خاموش رہیں یا نیم دلی سے کاروائیاں شروع کریں یا صدر بائیڈن یا جمہوریت کے حامی جوابی احتجاج شروع کرلیں تو پھر امریکہ میں بدامنی اور خانہ جنگی شروع ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ یہ صورتحال ٹرمپ کے مفاد میں ہوگی کیونکہ وہ یقیناً اس کی آڑ میں ایمرجنسی لگالے گا ۔سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اگر سبکدوشی یا انتقال اقتدار سے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟ صدر ٹرمپ اپنی صدارت برقرار رکھنے کےلئے ریاستی سکیورٹی فورسز استعمال بھی کرسکتے ہیں۔ شاید اسی مقصد کےلئے انہوں نے سیکرٹری دفاع کو برطرف کیا لیکن شاید امریکی فوج امریکی انتخابی عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اگست میں کانگریس کے ارکان کو جوائنٹ چیفس کے چیئرمین ، آرمی جنرل مارک ملی نے کہا ،”قانون کے تحت انتخابات کے کسی پہلو پر تنازعہ کی صورت میں امریکی عدالتیں اور امریکی کانگریس کسی بھی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے موجود ہیں۔ امریکی فوج کی ضرورت نہیں“۔ فوج کے انکار کے بعد ہی اس سال انہوں نے کئی امریکی شہروں میں احتجاج کو قابو کرنے کےلئے غیر فوجی سکیورٹی فورسز کو استعمال کیا تھا۔سرکاری عہدیدار امریکی آئین کی پیروی کا حلف لیتے ہیں۔ چنانچہ اگر ٹرمپ کی خواہش اور کوشش سے قطع نظر بائیڈن الیکٹورل کالج جیت جاتے ہیں یا عدالت سے ان کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے تو تمام سرکاری اہلکار بائیڈن کو منتخب صدر اور حلف برداری کے بعد ان کے احکامات ماننے کے پابند ہوں گے چاہے ان کا تعلق فوج ، سیکریٹ سروس ، ایف بی آئی یا بیوروکریسی کے کسی بھی دوسرے شعبے سے ہولیکن اگر قانونی داو¿ پیچ کی وجہ سے چند ریاستوں، انتخابی کالج یا کانگریس میں بھی ووٹنگ اور فاتح کی تصدیق موخر ہوجاتی ہے، اکثر ریاستی اہلکار مسٹر ٹرمپ کے الزامات پر یقین کریں، سینٹ بھی اس کا ساتھ دے، ایوان نمائندگان میں صدارتی انتخاب پر ووٹنگ کی نوبت آئے یا عدالتی مقدمہ طول پکڑ جائے تو بیس جنوری کو بائیڈن کو انتقالِ اقتدار مشکل ہو جائے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی بہرحال دائیں بازو میں بڑی مقبولیت ہے۔ انہوں نے سات کروڑ عوامی ووٹ لئے ہیں۔ اس لئے سب انہیں خوش رکھنا چاہتے ہیں کئی سرکردہ پارٹی رہنما بھی اسی وجہ سے ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پھر ہر کوئی ان کے غصے اور شر سے بھی بچنا چاہتا ہے۔