چوہوں کی دنیا

 پرسوں پشاور ایئر پورٹ پر ایک جہاز میں چوہا نکل آیا‘ یہ جہاز کراچی کے لئے روانہ ہونا تھا‘کپتان کو کہیں چوہے نے اپنی ایک جھلک دکھلائی او ر ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر پر سے سینگ غائب ہیں ۔ اب یہ نفسیاتی معاملہ بھی ہو سکتاہے کیونکہ جہاز کو خالی کرکے چوہے کو خوب تلاش کیا گیا مگر چوہے نے تو جیسے عہد کیا تھاکہ نہیں ملے گا۔پچھلے سال اپریل میں لاہور کے ہوائی اڈے پر ایک جہاز میں چوہا دیکھا گیا ۔مسافر اتر گئے چوہے کی تلاش ہوئی مگر چوہانہ ملا ۔سارے مسافر لا¶نج میں بیٹھے انتظار کرتے رہ گئے ۔ اس وجہ سے جہاز کو گرا¶نڈ کردیا گیا ۔مقصد یہ کہ اس کی پروازیں روک دی گئیں کہ جہاز تب اڑے گا جب چوہے کا پتہ ملے گا۔ پشاور کے واقعہ میں خوب چوہامار سپرے کئے گئے مگر چوہے کا کہیں پتا نہ چلا اگر چوہا بھی ساتھ سفر کرلیتا اور پشاور سے کراچی پہنچ جاتاتو کسی کا کیا جاتا۔ ایسا ممکن تھاکہ پرواز چلائی جاتی ۔پھرچوہے کی موجودگی کی وجہ سے پرواز پر کوئی آنچ نہیںآنا تھی۔لیکن غور فرمائیں تو چوہا اس لئے خطرناک ہو سکتاتھا کہ اس سے عورتوںاور مردوں کو الرجی سی ہے ۔ بھلا اگر کسی طرف سے چوہا چھلانگ لگاکر آن گرے تو چلتے ہوئے جہازمیں عورتوںکی چیخ و پکا راور سیٹوں سے اٹھ کربھاگنے سے بھگدڑ مچ جائے تو جہاز کے گرنے کے امکانات ہو سکتے ہیں ‘بعض خواتین اتنی ڈرتی ہیں کہ گھر میں دور کہیںچوہا نظر آجائے تو اپنی جگہ چھلانگیں مارنے لگیں گی بلکہ مرد بھی اس ننھی سی مخلوق سے اچھل کر دور بھاگتے ہیں۔اگر چوہوں کی روک تھام ہونا ہوتی توگھر گھر میں چوہے نہ ہوتے۔اب تک دنیا سے تمام چوہو ںکا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔مگر باوجود کوشش کے اور پے در پے نئی سے نئی ترکیب نکالنے کے کہ ان کو ہر طرح سے ہلاک کیا جائے ۔یہ مخلوق پہلے سے زیادہ توانا اور زیادہ ہوکر یہاں وہاں پھیل رہی ہے ۔کسی گھر کی تو بات چھوڑیں میں کہوں وہ کون سی گلی ہوگی جہاں چوہوں کی بھاگم دوڑ نہ ہو۔شہر کی گلیوں کا دورہ کریں اور شہر کے باہر بھی گلیوں میں آکر جائزہ لیں مووی بنائیں ۔آپ کو چوہے ایک گھر کی نالی میں سے ہو کر دوسرے گھرکے اندر جاتے ہوئے نہ صرف بہ آسانی بلکہ کثرت سے مل جائیںگے۔ان کے تدارک کے لئے بہت سی کوششیں ہوئیں مگر سب کی سب ناکام ثابت ہوئیں۔ چوہوں کا توہی کیا ذکر کاکروچ بھی جتنے مارو اس سے زیادہ پیدا ہوتے ہیں بلکہ چپکلیاں بھی گھر کی ممبر ہیں ۔ ان کو بھی بھگا¶ مارو ایک اور نئی پیدا ہو جائے گی۔ چپکلی کو دیکھ کر عورتیں تو ڈرتی ہی ہیں مرد بھی زیادہ تر ان سے خوفزدہ رہتے ہیںحالانکہ یہ آدمی کو دیکھ کر خود بھاگ اٹھتی ہے اور بجلی کی تیزی سے چوہے کی طرح یوں غائب ہو جاتی ہے کہ الٹا دیکھنے والے کو اپنی آنکھوں پر شک ہو جاتا ہے کہ نہیں نہیں یہ تو میری آنکھوں کا دھوکا تھا۔چپکلی کا ذکر تو ارسطو نے بھی کسی جگہ کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تین چار ہزار سال سے موجودتو ہے ۔ اب چوہے بھی جانے کب سے اس دھرتی پر آباد ہیں ۔انسان کی اس دنیا میں ابتداءکا سراغ پچاس لاکھ سال پہلے کا لگایا گیا ہے ۔ممکن ہے آنے والے زمانے میں یہ عرصہ زیادہ ہو جائے۔ چوہا ‘کاکروچ‘ چپکلی ‘چیونٹیاں ‘کتے ‘بلیاں یہ سب انسانوں کے قریب اس لئے رہتی ہیں کہ ان کو آدمیوں کے پاس سے گند او رکوڑے کے ڈھیر پر سے خوراک ملتی ہے۔چوہوں کے کارن تو گھر کی کوئی چیز سلامت نہیں ۔جو زہریلی دوا ڈالو یہ مزے سے کھا پی لیتے ہیں ‘ فی چوہے کے قتل پر انعام بھی مقرر کیا گیا ۔ پشاور میونسپلٹی نے کہا جتنے چوہے لا¶ فی چوہا اتنی زیادہ رقم ملے گی۔ تب سے اب تک چوہوں کے لشکر کے لشکر ہیں اور گھروںکے کونے کھدرے اورنالیاں ہیں جہاں سے یہ یلغار کرتے ہیں۔ تازہ دم ہونے کے بعد گلی کے ہر گھر کی سن گن لیتے ہیں۔ ان کو گلی کے ہر گھر کے بارے میں بھرپور جانکاری حاصل ہے چوہو ں کا خاتمہ دنیا بھر سے عام طور پر ناممکن ہے اور ہماری ارضِ وطن میں تو خاص طور پر ان کی افزائش زیادہ ہے۔