پاکستان کی معیشت اور معاشرت ’زرعی‘ ہے۔ ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادی کا کسی نہ کسی صورت زرعی شعبے پر اِنحصار ہونے کی بدولت یہ ناممکن بات بھی ممکن ہوئی کہ ’کورونا وبا‘ کی وجہ سے جب کاروباری سرگرمیاں معطل تھیں تو اِس تعطل (لاک ڈاو¿ن) کے منفی اثرات معیشت اور سماج نے برداشت کئے اور معاشی مندے کے باوجود بھی لوگ بھوک سے نہیں مرے۔ اِس حقیقت اور پس منظر کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت تھی‘ جسے ماضی کی طرح آج بھی فراموش کیا جا رہا ہے جبکہ فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ زرعی شعبے کی مضبوطی‘ بحالی اور توسیع و ترقی کےلئے زیادہ سے زیادہ وسائل‘ توانائیاں اور سوچ بچار کو وقف کریں۔ توجہ طلب ہے کہ خیبر پختونخوا میں سالانہ ”پندرہ ہزار ٹن (ڈیڑھ کروڑکلو گرام)“ شہد کی پیداوار ہوتی ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا نصف ہے لیکن یہ شعبہ کورونا وبا سے شدید متاثر ہے اور حکومتی توجہ کا طالب ہے۔آل پاکستان بی کیپرز‘ ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ حقائق نامے کے مطابق رواں برس (سال دوہزار بیس کے دوران) مختلف بیماریوں کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیاں ضائع ہوئیں جس کی وجہ سے شہد کا کاروبار کرنے والوں کو غیرمعمولی مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ لاک ڈاو¿ن لگنے کی وجہ سے بیشتر علاقوں میں نقل و حمل ممکن نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہاں مکھیوں کو دی جانے والی ادویات بروقت نہیں پہنچائی جا سکیں‘ جس کے باعث مکھیوں پر فالج کا حملہ ہوا‘ اور انہیں پیچش کی بیماری لگ گئی۔ علاوہ ازیں مختلف اقسام کے کیڑے مکوڑوں (مائٹس) نے بھی مکھیوں کو پریشان کیا‘ جن کی تلفی کےلئے متبادل و مقامی طور پر ادویات یا طور طریقوں سے شہد کا کاروبار کرنے والے آگاہ نہیں تھے۔ رہی سہی کسر ”امریکی فاول بروڈ“ اور ”یورپین فاول بروڈ“ نامی بیماریوں نے پوری کردی جس کے باعث لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیوں کی موت ہوئی! اگر صرف خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو گزشتہ چند ماہ (سال دوہزار مارچ سے اکتوبر کے درمیان) قریب ساٹھ لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ شہد کا سالانہ پیداواری ہدف حاصل کرنا تو درکنار کاروبار کرنے والوں کو اپنی بنیادی سرمایہ کاری اور روزی روٹی کی فکر لاحق ہے اور بڑی تعداد میں مکھیوں کی ہلاکت کے باعث اگلے سال (دوہزار اکیس) میں بھی شہد کی پیداوار کا ہدف پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شہد کے کاروبار کی بنیادی طور پر تین مراحل و مدارج میں تقسیم ہوتا ہے جن میں سب سے پہلے مکھیاں پالنے والے افراد کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر اندرون ملک شہد کی خریدوفروخت سے جڑی کاروباری لین دین ہوتی ہے اور تیسرے مرحلے میں شہد کی بیرون ملک فروخت (برآمد) کی جاتی ہے۔ پاکستان سے شہد خلیجی (عرب) ممالک میں فروخت کےلئے جاتا ہے جبکہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ معاہدے نہ ہونے اور اُن کے معیار کے مطابق شہد کی تیاری (پروسیسنگ و پیکنگ) پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں پیدا ہونے والا انتہائی نایاب اور اعلیٰ قسم کا شہد بھی یورپ و امریکہ برآمد نہیں ہوتا۔ شہد کی مکھیاں پالنے والوں کو کورونا کے دوران لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے آمد و رفت میں دشواریوں کا سامنا رہا اور لاک ڈاو¿نز کی وجہ سے پرفضا مقامات بند رہے جن کی وجہ سے مکھیوں کو موافق مقامات کو منتقل نہیں کیا جاسکا۔ شہد کی مقدار میں کمی کے باعث کاروبار کرنے والے اسٹاک کئے گئے شہد سے گزشتہ سال کے اخراجات بھی پورے نہیں کرسکے ہیں۔ وبا سے قبل بیرونِ ملک بھجوائے گئے شہد کی قیمت کی وصولی میں تاخیر نے بھی بیوپاریوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی زیادہ تر ادویات چین اور دیگر ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں تاہم وبائی صورتحال میں اندرونِ ملک لاک ڈاو¿ن کے ساتھ سرحدوں کی بندش کے باعث ادویات کا حصول ناممکن ہوگیا تھا۔ شہد کی مکھیاں ’پروٹوزون‘ نامی جراثیم کے باعث پیچش (نوسیما) میں مبتلا ہوجاتی ہیں‘ جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور ہوا میں نمی کا تناسب بھی ہے جبکہ مکھیوں کو پیچش سے بچانے کے لئے ٹیرامائسین اور فیومیڈل بی ادویات دی جاتی ہیں اور یہ درآمدی ادویات ہیں۔ اِسی طرح شہد کو ذخیرہ (سٹاک) کرنے والوں کو اُمید ہوتی ہے کہ سیزن میں نئے شہد اور پرانے شہد کی فروخت کا سلسلہ جاری رہے گا جس سے اُن کی سرمایہ کاری و دیگر جاری اخراجات پورے ہوتے رہیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں قومی سطح پر شہد کا کاروبار والے فارمز کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے جس سے قریب بارہ لاکھ افراد کا روزگار منسلک ہیں جبکہ پاکستان میں شہد کی سالانہ پیداوار قریب تیس ہزار ٹن ہے جو موجودہ حالات میں بری طرح متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔