الیکٹرا نک ووٹنگ سسٹم

اکتوبر یا نو مبر 2023کے انتخا بات اگرا لیکٹرا نک ووٹنگ سسٹم کے تحت ہونے لگے تو پا کستان ٹیلی کمو نیکیشن اتھا رٹی ( پی ٹی اے ) کے لئے بڑا چیلنج ہو گا وزیر اعظم عمران خان نے اگلے روز الیکٹرا نک ووٹنگ کا اعلا ن کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا سسٹم ہے جس کو ہار نے والا تسلیم کرے گا اس میں غلطی یا ہیرا پھیری کی کوئی گنجا ئش نہیں ہو گی اور یہ مو جو دہ حکومت کی نیک نیتی ہے جو اس طرح کا جدید سسٹم لا رہی ہے کیونکہ حکومت کی نیت شفاف انتخا بات منعقد کروانے کی ہے وزیر اعظم نے اعلان کر دیا اب بال الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے الیکشن کمیشن پا کستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی سے رجوع کرے گی ٹیلی کمیو نیکیشن اتھا رٹی سروس دینے والی کمپنیوں سے معلو مات حا صل کرے گی اور منصو بہ بنا ئیگی کہ اگلے ڈھا ئی سا لوں میں ملک کے 70فیصد علا قے کو کس طرح نیٹ ورک فرا ہم کیا جائے گا اس وقت 2020میں صرف 30فیصد علا قوں میں نیٹ ورک مو جو د ہے 2018ءمیں مو جودہ نیٹ ورک کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کی تر سیل کےلئے آر ٹی ایس کی سہو لت دی گئی تھی جو نا کام ثا بت ہوئی پشاور میں بسوں کے ٹکٹ کےلئے آن لائن سسٹم لا یا گیا تھا جو ہر 5دن بعد بیٹھ جا تا ہے دراصل انگریزی کے جو الفاظ ہم نے یو رپ اور امریکہ سے لے لئے ان الفاظ کے ساتھ ان ملکوں کا کلچر بھی ہے کلچر یہ ہے کہ وہ لو گ پہلے سروے کراتے ہیں سروے کرواکر دیکھتے ہیں کہ کتنے صو بوں کے اندر کتنے اضلا ع اور ڈویژنوں میں نیٹ ورک مو جو د ہے ملک کا کتنا حصہ بجلی ، ٹیلیفون ، کمپیو ٹر اور آن لائن سسٹم کے دائرے میں آیا ہوا ہے کتنے فیصد پو لنگ سٹیشن ایسے ہیں جہاں بجلی اور ٹیلیفو ن دستیاب ہے ، تھری جی اور فور جی نیٹ ورک مو جو د ہے بجلی کی لو ڈ شیڈنگ اور آن لائن سسٹم کے بریک ڈا ون ہونے کی شرح کیا ہے کتنے گھنٹوں کے بعد بجلی چلی جا تی ہے اور کتنے گھنٹوں کے بعد آن لائن سسٹم کا بریک ڈاﺅن نظر آتا ہے ؟ اس قسم کے سروے کے بعد وہ لو گ پا لیسی بنا تے ہیں اور اُس پر عمل در آمد ہو تا ہے عمل درآمد میں رکا وٹ نہیں آتی اس مر حلے پر ہم خیبر پختونخوا ، بلو چستان ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علا قوں کا نام نہیں لیں گے سندھ اور پنجاب کے میدا نی علا قوں میں نصف سے زیا دہ علا قے ڈی ایس ایل ، وائی فائی ، تھری جی اور فورجی کی سہو لت سے محروم ہیں لاہور ملتان ، حیدر آباد اور اسلام آباد سے 100کلو میٹر باہر نکل کر دیکھیں تو آپ کو نیٹ ورک نہیں ملتا بجلی اگر چہ کھمبوں کے حساب سے مو جود ہے ہے تا ہم کب بجلی جا تی ہے اور کب آتی ہے اس پر وثوق کیساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا اس کا ایک جا مع سروے کرانا ہو گا کہ 22کروڑ کی آبادی والے ملک کے 12کروڑ ووٹر میں سے 5کروڑ کی ووٹ دینے والی آبادی کے پا س 24گھنٹوں کی بجلی اور ٹیلی فون یا آن لائن نیٹ ور ک ہے یا نہیں نو مبر 2020میں 5کروڑ ووٹروں کے پا س نیٹ ورک کی سہو لت دستیاب نہیں الیکٹرا نک ووٹنگ میں کیا ہوتا ہے ؟ ایک ووٹر اپنی شنا خت کرانے کے بعد ووٹنگ بوتھ کے اندر جا تا ہے کمپیو ٹر کی سکرین پر بیلٹ پیپر آ جا تا ہے وہ اپنے پسندیدہ اُمید وار کے انتخا بی نشان کو ووٹ دینے کےلئے بٹن دبا تا ہے یا سکرین پر انگلی رکھتا ہے اور ووٹ دے دیتا ہے اس کے ہاتھ میں کوئی کا غذ یا مہر نہیں ہوتا ووٹوں کی گنتی کمپیوٹر کے ذریعے کی جا تی اس قسم کی ووٹنگ اور گنتی کے لئے 24گھنٹے بجلی ہو نی چا ہئے نیٹ ورک ہونا چا ہئے الیکٹر ا نک ووٹنگ کے لئے ووٹر کے استعداد کو ہم زیر بحث نہیں لا ئینگے ہم یہ بحث نہیں چھیڑ ینگے کہ سانگھڑ ، ٹو بہ ٹیک سنگھ ، چا غی اور چترال کے کسی گاﺅںکا ناخواندہ ووٹر کمپیوٹر کی سکرین پر آکر کیسے ووٹ دیگا وہ امریکہ اور یو رپ کے ووٹر کا کس طرح مقا بلہ کر ے گا ؟ اس وقت ہمارے سامنے دستیاب سہو لتوں کا مسئلہ ہے ملک کے 115اضلاع میں کم و بیش 2لاکھ پو لنگ سٹیشن ہو نگے ان میں سے ایک لا کھ پو لنگ سٹیشنوں میں بجلی کی لو ڈ شیڈنگ ہو ئی یا نیٹ ورک کا بریک ڈاون ہوا تو پورا سسٹم نا کا رہ ہو جائے گا یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ تمام پو لنگ سٹیشنوں میں بجلی اور نیٹ ورک کی سہو لت مو جو د ہو گی 2023کے انتخا بات میں ڈھا ئی سال رہتے ہیں ان ڈھا ئی سا لوں میں دیکھنا ہو گا کہ کتنے پو لنگ سٹیشنوں میں بجلی دستیاب ہے کتنے پو لنگ سٹیشنو ں میں فون کا کوئی نہ کوئی نیٹ ور ک مو جو د ہے اگر نہیں تو کسی پرائمری سکول یا ڈسپنسری کو یہ سہو لتیں کس طرح فراہم کی جا سکتی ہیں ؟ اس قسم کے سروے کے بعد ہی الیکٹرا نک ووٹنگ کا سسٹم لا نے پر غور کیا جا سکتا ہے نئے سسٹم کےلئے بنیا دی ڈھانچہ ہو نا چا ہئے ۔