اقوام متحدہ ہرسال 20نومبر کو عالمی یوم اطفال کے طور پر مناتا ہے ،رواں برس کے عالمی دن کا موضوع حقوق اطفال کے تحفظ کی آگاہی کوقراردیاگیا ہے۔بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی کنونشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ اس کنونشن کی جانب سے گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں جن میں زندہ رہنے، صحت، تعلیم اور تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے سرکاری سطح پر جو کوششیں کی جارہی ہیں اس کے بارے میں یونیسیف کاکہنا ہے کہ گو کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس نے تیس برس قبل حقوق اطفال کے چارٹر پر ایک برس کے اندر ہی دستخط کر دیئے تھے اور اس چارٹر پر عمل درآمد کی کوششیں شروع کر دی تھیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں ۔یاد رہے کہ 20نومبر کودنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بچوں کا عالمی دن منایا گیا ۔ہمارے ہاں آجکل بچوں کو قتل کئے جانے کے جو اندوہناک واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں وہ بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کے لئے ایک بڑ اچیلنج ہے۔بچوں پر تشدداور بعد ازاں ان کے بہیمانہ قتل کے سلسلے میں مردان،نوشہرہ،چارسدہ ،کشمور کے دل کو دہلا دینے والے حالیہ واقعات کو لوگ نہیں بھول پائے تھے کہ بڈھ بیر پشاور کے نواحی علاقے بالو خیل میں سات سالہ معصوم بچی لیہ کے ساتھ پیش آنے والے اندوہناک واقعے نے پوری انسانیت کو جھنجوڑ کررکھ دیاہے۔بالوخیل کے قریبی قبرستان سے علی الصبح ملنے والی لاش جس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک روز قبل لاپتہ ہونے والی سات سالہ لیہ نامی بچی کی ہے جسے ایک دن قبل اغواءکیا گیا تھا ۔وقوعہ سے ایک روز قبل جب یہ بچی گھر نہیں پہنچی تو اس کے والدین نے اسے ادھر ادھر ڈھونڈنے میں ناکامی کے بعد مقامی تھانے میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ۔اگلی صبح ایک مقامی شخص کی نشاندہی پرجب لیہ کے والدین دیوانہ وار قریبی قبرستان پہنچے تو وہاں پہنچ کر وہ اپنے ہوش وہواس کھو بیٹھے ۔لیہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے ہماری معاشرتی بے حسی اوراخلاقی گراوٹ کو ایک بار پھر بے نقاب کردیاہے ۔سوال یہ ہے کہ ہمارے اردگرد یہ انسانیت سوز واقعات اس تسلسل کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں اور آخر اس ظلم اور بربریت کا ذمہ دار کون ہے ۔ معصوم زینب کے سفاک قاتل کو تختہ دار پرلٹکائے جانے کے بعد ایک امید پید اہو چلی تھی کہ یہ فیصلہ معاشرے میں بچوں پر بڑھتے ہوئے تشددکی روک تھام میں مددگار ثابت ہوگا لیکن اس کا تسلسل اسی نوع کے دیگر کیسز میں نہیں دکھائی گئی جس کا نتیجہ آئے روز سامنے آنے والے تشدد کے نت نئے کیسز ہیں۔