مشروط دوستی

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ افغانستان دورے کے دوران ہونے والے اِس اتفاق رائے کی قسمت کا تعین کیا جائے کہ دونوں ممالک انسداد دہشت گردی کے لئے ایک دوسرے سے خفیہ معلومات کا تبادلہ کریں گے تو افغان بھارت دوستی اور قربت کے ماحول میں ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ۔اُنیس نومبر کو وزیر اعظم عمران خان پہلی بار افغانستان کے دورے پر گئے اور افغان صدر اشرف غنی نے اُن کے اس دورے کو ”تاریخی“ قرار دیا۔ عمران خان نے پاکستان کے اِس مو¿قف کو دہرایا کہ ”افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے وہ ہرممکن مدد کریں گے۔“ لیکن جیسی اُمید ہے شاید ویسا ثمر برآمد نہ ہو۔ عمران خان کے دورہ افغانستان کو نہ صرف امن کی بحالی کی کوشش بتایا جارہا ہے بلکہ اسے افغانستان اور پاکستان کی موجودہ حکومت کے درمیان بڑھتی قربت کے طور پر دیکھا جارہا ہے لیکن کیا پاکستان افغانستان کی بھارت کے ساتھ قربت کو کم کرنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے افغانستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور تعلقات کی حالیہ چند برس میں مرتب ہونے والی تاریخ پر نظر کرنا ہو گی۔ مئی دوہزارچودہ میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے بھارت کے نو منتخب وزیر اعظم مودی کی حلف برداری میں شرکت کی تھی۔ مذکورہ تقریب میں سارک اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے سربراہان بھی مدعو تھے۔ پاکستان کی نظر سے دیکھا جائے تو افغانستان اور بھارت کی دوستی ’خطرہ‘ ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت افغانستان سے خوفزدہ نہیں اور نہ ہی افغانستان کی جانب سے کسی حملے کو اپنی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتا ہے بھارت کے لئے پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیدا کرنا اِس لئے بھی ضروری ہیں کیونکہ ایسا کرکے وہ اپنے ہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بالخصوص کشمیر میں انسانیت سوز مظالم سے عالمی توجہ ہٹا سکتا ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جن میں بھارت کی سازشوں سے پاکستان کو نقصان پہنچا جیسا کہ 1971ءمیں پاکستان کے ایک حصے کا سقوط ہوا اُور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ اس کے بعد پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ ملک کو مزید تقسیم ہونے سے بچائے جبکہ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو مزید تقسیم کرے ‘بھارت کو افغانستان سے الگ کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش 1950ءاور 1960ءکی دہائی میں سامنے آئی تھی جب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مل کر ایک اتحاد (فیڈریشن) بنانے کی کوشش کی۔ اُس وقت کے حکمران جنرل ایوب خان نے افغانستان‘ پاکستان‘ ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر فیڈریشن تشکیل کرنا چاہتے تھے اور اگر ایسا اُس وقت ممکن نہیں ہوا اور وزیراعظم عمران خان اِس اتحاد کو بنانے کی کوششیں ازسرنو کریں اور افغانستان کے پہلے دورے کو آخری نہ سمجھیں تو پاک افغان قربت کی وجہ سے بہت ساری پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کی تجارت کا پاکستان کا انحصار ہے‘ جسے ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے‘ میں اِس شرط کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح عالمی طاقتوں کو یقین دلایا جاتا ہے بالکل اُسی طرح پاکستان کو بھی یقین دلایا جائے کہ اَفغان سرزمین اور وسائل کسی بھی ملک کی طرح پاکستان کے خلاف بھی استعمال نہیں ہوں گے۔ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ پاکستان سے خوردنی اجناس اور ہر قسم کے تجارتی فوائد حاصل کرنے اور چالیس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کا بوجھ ڈالنے کے باوجود افغان حکمرانوں اور عوام کی اَکثریت کے دل پاکستان کے دُکھ سکھ میں مغموم اور مسرت محسوس نہیں کرتے۔