بازیاں اور قلابازیاں

 یہاں ہر قسم کی بازیاں کھیلی جاتی ہیں ۔ہرقسم کے کھیل کھیلے جاتے ہیں ۔ سچ کی خاطر جان کی بازی لگانا اس کا تو ذکر نہیں مگر کبوتر بازی کا تذکرہ ضرور ہے ۔سڑک پر جا رہا تھا تو نظر آیاکہ ایک نوجوانِ رعنا اپنے سرخ مرغے کو لے کر بیٹھا تھا۔میں نے سوچا کہ اگر یہ لڑکا ہاتھ میں کورس کی کتاب لے کر بیٹھا ہوتا تو کتنا اچھا تھا ۔مگر دوسرے ہی لمحے ایک اور خیال کی طرف ذہن چلا گیا تودل میں کہا یہ ٹھیک کر رہاہے۔ایک اور جوان خون کو جوش مارتا ہوا دیکھتا ہو ںبلکہ روز دیکھتا ہوں تو بہت برے خیالات آتے ہیں کہ یہ اپنی جوانی اور اپناقیمتی وقت کیوں برباد کر رہاہے ۔اس کی سیٹیوں کی آوازیں روز کانوں کے پردوں کو چیر جاتی ہیں۔ وہ اپنے گھر کی چھت کے اوپر بنی ہوئی ممٹی پر کبوتر بازی میں مصروف ہو تا ہے ۔پھر اس کا مقابلہ دوسرے گھروں کی چھتوں سے چپکے ہوئے دیگر کبوتر اڑانے والوں سے ہوتا ہے ۔ ایک دھواں دھار کیفیت ہوتی ہے ۔مگر غور کیا تو خیال آیا کہ یہ غلط نہیں کر رہے۔بازار میں خاص کر جمعہ کے دن دیکھا کہ ایک گروہ ہے اور وہ سارے کبھی آگے ہوتے ہیں اورکبھی پیچھے پلٹ آتے ہیں ۔میں تذبذب کی کیفیت میں تھا کہ دیکھوں ہو کیا رہا ہے۔ ذرا آگے ہوا اور گردن اونچی کر کے ان کے کاندھوں کے درمیان میں سے اس دائرے میں کھڑے چادریں لئے اشخاص کے بیچوں بیچ ہو کر زمین پر نگاہ کی کیونکہ یہ سارے زمین کو دیکھ رہے تھے۔ اوہو یہ تو دو مرغوں کو آپس میں لڑا رہے تھے ۔ ان دو اصل مرغوں نے ایک دوسرے کو لڑ لڑ کر زخمی کر دیاتھا ۔جانے کس کامرغ جیتے گا اور اس کے بعد کیا ہوگا ۔جو ہوگادیکھا جائے گا اور دیکھیں گے بھی یہ خود ۔ہم تو وہاںسے آگے بڑھ گئے ۔مگر سوچا تو ایک لمحے کو میرے دل میں ان مرغ لڑانے والوں کے لئے رعایت کی لہر سی آ ئی۔ خیر چونکہ ہم تو شہر کی سڑکوں پر آوارہ گھومنے والے نہیں کام کاج سے خوار پھرتے ہیں ۔لہٰذا ہر قسم کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔سو ایک بار یہ دیکھنے کوملا کہ ایک جگہ سڑک کنارے کے فٹ پاتھ پر بٹیر بازی ہو رہی تھی۔ دو فریقین اور پھر ان کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ تماش بین بھی اس مقابلے کے مداح تھے اور خوش ہو رہے تھے۔ سوچا جانوروں کو خواہ مخواہ ان کی مرضی کے خلا ف آپس میں لڑانا پھر ان کے بال و پر کے ہوتے سوتے ان کو قید کر کے رکھنا کسی کھاتے میں درست نہیں۔دل نے کہا چل یار تو نکل یہاںسے۔ یہاں تیراکیاکام ۔ تیرا کام کتاب سے ہے ۔مگر اچانک ایک خیال آیا تو ذہن کو تسلی ہوئی کہ چلو یہ کتاب نہیں پڑھ رہے تو کیا ہوا۔جانے دو ۔ان کے لئے بھی رعایت کی لہر ذہن کو جھولا دے گئی۔مگر وہ جو کتے لڑارہے تھے ۔ایک بار یہ نظارہ بھی تو آنکھوں میں دکھن کاباعث ہوا ۔ مگر میںکیوں کھڑا رہ گیا۔ میری خود سمجھ میں نہیں آیا۔ بعد میں غور کیا تو خودکو خود سمجھ آ گئی کہ یہ کتوں کولڑتاہوا دیکھ رہے تھے۔مگر میں ان آدمیوں کی طرف غور سے دیکھتا تھا ۔ان کے رویوں اور ان کی اعلیٰ درجے کی سنجیدگی کی طرف میری نگاہ تھی جو یہ لوگ لڑتے کتوں کے معاملے میں انجام دے رہے تھے۔میں وہاں سے نکل آیا کیونکہ مجھے یہ منظر اچھانہیں لگا۔ ان لوگوںکے ہاتھوں میں کتابیں ہوتیں اوروہ اسی فٹ پاتھ کی ہری گھاس کی پٹی پر بیٹھ کر مصروفِ مطالعہ ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔مگر میںنے کہا چلو کتاب نہ سہی مگر یہ قابلِ رحم اگر نہیں تو قابلِ سزا بھی نہیں۔میں ان تمام سرگرمیوں کو اچانک اچھا اس لئے سمجھنے لگا کہ ان کی طرح اور لوگ ہیںجو انسانوں کو آپس میں لڑوا رہے ہیں ۔ دو ملکوں کو آپس میں لڑوانے کے درپے ہیں۔ یہ اگر فارغ ہیںتو اندھیری راہوں میں لوٹ مار تو نہیں کر رہے یہ قتل و غارت میں تو مصروف نہیں ۔ یہ گلیوں میں سرراہ شہرکے باسیو ںسے پستول کی نوک پرمال و متاع تو نہیں چھین رہے او رمیں نے ان کو رعایتی نمبر دے کر جانے دیا کہ بٹیر لڑا¶ مگر انسانوں کو نقصان نہ پہنچا¶ کتاب نہ پڑھو مگر آدمیوں کو لہولہان نہ کرو۔کبوتر بازی کر لو مگر آئس کانشہ تو نہ کرو۔ہیروئن پینے سے تو دورر ہو ۔