اگر حکومت اور حزب اختلاف اپنی اپنی ضد پر اڑے رہے اور سیاست دانوں کے درمیان یونہی نفرت اور غلط فہمیوں کی خلیج بڑھتی رہی تو خاکم بدہن ملک اور نظام کا نقصان ہو جائے گا۔ تو کوئی ہے جو تنقید اور کشمکش کے بجائے بات چیت اور اتحاد کےلئے کوشش کرے؟شک، نفرت، بغض اور ضد سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کی بنیاد پر رائے، طرزعمل اور پارٹی پالیسی بنانے کے بجائے ہر گروہ کو خوش اخلاقی، عدل اور احترام سے کام لینا ہوگا۔ کسی طبقے، گروہ یا قوم کے خلاف تعصب کی بنیاد پر بننے والا ہر نظریہ اور طرزعمل توازن سے خالی ہوتا ہے اور ان سے حالات و واقعات کا ایسا منفی سلسلہ چل نکلتا ہے جو پھر کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتا حتیٰ کہ معاشرے اور سارے نظام کو بھسم کردیتا ہے۔آئین اور جمہوریت کا تقاضا ہے ملک میں عوام کی منتخب حکومت قائم ہو، وہ عوام کو جواب دہ ہو، ان نکات پر کوئی اختلاف نہیں مگر مسئلہ نیتوں پر شک و شبہے سے پیدا ہوا ہے۔ ایک طرف کو دوسری جانب پر شک ہے کہ یہ اس کو نقصان پہچانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس شک اور غلط فہمی کی وجہ سے دوسرے کے خلاف سازشی نظریات پھیلائی جارہی ہیں، باہمی رابطے ختم ہوچکے اور باہمی کشمکش اور نفرت عروج پر پہنچ چکی ہے۔ ظاہر ہے حکومت اور حزب اختلاف اور اداروں سب کی موجودگی ضروری ہے۔ ان میں سے کوئی ایک خاکم بدہن دوسرے کو ختم کرسکتا ہے نہ اس کی کوئی گنجائش ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ملک کو درپیش مسئلوں کا حل کسی ایک کے بس کی بات بھی نہیں اور وقت بھی تیزی سے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ ظاہر ہے احترام کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی ہی واحد راستہ ہے تو پھر کون ہے جو اس مقابلے اور ہیجان کو چھوڑنے کی پہل کرے اور ایک مشترکہ قومی لائحہ عمل ترتیب دینے کےلئے قومی ڈائیلاگ شروع کروائے؟ کون ہے جو اپنے بیانیہ، ذہنی اپچ، مفادات اور تعصب سے بالاتر ہوکر اور سیاسی مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے مخالفین کی طرف پہلے ہاتھ بڑھائے؟قوم منتظر ہے کہ کون سا رہنما دوسری طرف سے پہل کا انتظار کرنے کے بجائے خود اپنے مخالفین کے خلاف گولہ باری چھوڑ دے گا، ان سے رابطہ کرے گا، ان کو عزت و احترام دے گا اور ان کی طرف دست تعاون بڑھائے گا۔ امید ہے جلد ملک و قوم وہ سیاسی منظرنامہ دیکھے گی جب اپنے مخالفین کو چور، ڈاکو اور غدار قرار دینے کی قبیح رسم دم توڑ دے گی۔ کسی کو تو آگے آکر اپنی غلطیوں، کوتاہ بینی، مفاد پرستی اور زیادتیوں کا اعتراف کرنا ہوگا‘ کیا سیاست دانوں میں سے کوئی ہے جو ببانگ دہل یہ اعتراف کرے کہ انتخابات میرے لیے تبھی آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہوتے ہیں جب میں اور میری پارٹی جیت جائیں ورنہ پھر سیلیکشن، اداروں کی مداخلت اور دھاندلی کے الزامات لگاکر نتائج کو مسترد کرنا اور دوبارہ الیکشن کےلئے تحریک چلانا میرا معمول رہا ہے مگر آئندہ میں عوام کے مینڈیٹ کو مانوں گا، مخالفین کو کامیابی پر مبارکباد دوں گا اور کبھی دوبارہ انتخابات اور منتخب حکومت کو ہٹانے کےلئے تحریک نہیں چلاو¿ں گا۔؟ کیا وقت نہیں آیا کہ اب سب یہ طرزعمل چھوڑ دیں اور سماجی و سیاسی اصلاح کےلئے آئین و قانون کے اندر کام کرنا شروع کریں۔آخر وہ دن کب آئےگا کہ جب ہمارے سب بڑے اپنے بیرون ملک پڑے اثاثوں بارے متعلقہ اداروں پر الزام لگانے اور اپنی دولت اور ذہانت استعمال کرتے ہوئے احتساب سے بچنے کے بجائے اپنے اثاثے یہاں لے آئیں ان کے جواز پر یہاں اداروں کو مطمئن کریں یا ان پر جرمانہ اور ٹیکس ادا کرکے انہیں سفید کروائیں۔ظاہر ہے اگر آپ آمریت سے نفرت کا دعویٰ کرتے ہیں تو پھر آپ کا طرزعمل اور آپ کی پارٹی جمہوریت پسندی کا نمونہ ہونا چاہیے۔