پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ’چھ ارب ڈالر‘ قرض کی توقع ہے جس کے لئے آئی ایم ایف اور پاکستان میں مذاکرات متوقع ہیں۔ ’قرض بحالی پروگرام‘ اُس معاہدے کا تسلسل ہوگا جو آئی ایم ایف نے جولائی دوہزاراُنیس میں طے کیا تھا اور اِس کے تحت پاکستان کو تین برس کے دوران چھ ارب ڈالر کا قرض دینے کی منظوری دی گئی تھی تاکہ بیرونی ادائیگیوں کے ساتھ پائیدار اقتصادی ترقی میں پاکستان کی مدد کی جا سکے۔ مذکورہ پروگرام کے تحت اب تک پاکستان کو دو اقساط کی صورت ڈیڑھ ارب ڈالر وصول ہو چکے ہیں لیکن مالیاتی امور کے ماہرین اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے میں دیر کی‘ جس کی وجہ سے قرض کے حصول اور اَب اِس کی بحالی میں مشکلات درپیش ہیں! کورونا وبا کی وجہ سے پاکستانی معیشت جو ستر برس کے سفر میں پہلی مرتبہ ”منفی شرح نمو“ میں داخل ہوئی ہے اور ایسی صورت میں ’آئی ایم ایف‘ کی شرائط کے مطابق بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیسے کرتے ہوئے حکومتی وصولیوں میں اضافہ ممکن نہیں۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ عام آدمی (ہم عوام) کی بجائے سرمایہ داروں پر بلواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کرے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چند ہزار روپے مالیت کے موٹرسائیکل صارف کے لئے بھی فی لیٹر پیٹرول کی وہی قیمت ہے جو کروڑوں روپے مالیت کی گاڑی (لینڈ کروزر) رکھنے والے کے لئے مقرر ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بجلی گیس و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین آمدن کے لحاظ سے مختلف طبقات کے لئے الگ الگ ہونا چاہئے۔ نکتہ یہ ہے کہ جب ’آئی ایم ایف‘ کسی ملک کو قرض دیتی ہے تو دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی مالی امداد اور قرضے فراہم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اندیشہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض بحالی پروگرام درحقیقت قرضوں پر انحصار معیشت کو مزید مقروض کرنے کا مو¿جب بنے گا۔ مسئلہ وہ طریقہ¿ واردات بھی ہے جو ’آئی ایم ایف‘ کا خاصہ ہے اور یہ کسی مجبور ملک کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے کی کسر نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں آئی ایم ایف قرض بحال کرتا ہے تو اُس کے ساتھ خدمات و سہولیات کا معاشی بوجھ عوام پر منتقل کرنے جیسی کڑی شرائط عائد کرتا ہے جبکہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی کی شرح عام آدمی کی قوت خرید کا اِمتحان لے رہی ہے اور بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت اگر عام آدمی پر بوجھ بڑھتا ہے تو اِس سے تحریک انصاف کی مقبولیت یقینا متاثر ہوگی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور اس سے جڑی سخت شرائط (جن میں ٹیکس میں اضافہ اور بجلی کے نرخ بڑھانا شامل ہیں) سے ملکی معیشت اور عوام کو کیسے محفوظ رکھنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار ہونی چاہئے؟ حکومت کی کوشش ہو گی کہ قرض بحالی پروگرام سے معیشت کو فائدہ ہو لیکن اِس قسم کے عزائم اور ارادوں کا اظہار ماضی کے حکمران بھی کرتے رہے ہیں اور ضرورت جس سادگی پر مبنی طرز حکمرانی متعارف کروانے کی ہے‘ وہ ہدف تاحال حاصل نہیں ہو سکا ہے اگرچہ وزیراعظم ہاو¿س‘ ایوان صدر‘ وزرائے اعلیٰ ہاو¿سیز اور گورنر ہاو¿سز کے اخراجات میں کمی لائی گئی ہے لیکن سرکاری وسائل کا ضیاع صرف عوام کے منتخب نمائندے ہی نہیں کر رہے بلکہ سرکاری ملازمین اور قانون ساز ایوانوں کے اراکین کے لئے مراعات بھی لمحہ فکریہ ہیں۔ حال ہی میں ماضی کے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹرز کی مراعات بھی بحال کی گئی ہیں‘ جو سراسر ناانصافی اور اُن دعوو¿ں کی نفی ہے جو حکومت وقتاً فوقتاً کرتی رہی ہے۔یقینی دکھائی دے رہا ہے کہ ’قرض بحالی پروگرام‘ سے پاکستانی روپے کی قدر مستحکم نہیں رہے گی اور گزشتہ چار ماہ میں جو معمولی بہتری نظر آئی ہے وہ روپے کی قدر میں کمی کی صورت ضائع ہو جائے گی۔ اگرچہ فی الوقت روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کرتی ہے اور اس میں اُتار چڑھاو¿ بھی مارکیٹ ہی کے رویئے سے ہوتا ہے لیکن اگر آئی ایم ایف سے قرض لیا جاتا ہے تو اِس کا دباو¿ پاکستانی روپے پر پڑے گا اور پاکستان کے فیصلہ سازوں کی جانب سے یہ توقع رکھنا کہ آئی ایم ایف ہمارے اقتصادی مسائل اور عام آدمی کی معاشی حالت دیکھ کر لچک (رحم) کا مظاہرہ کرے گا تو یہ توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ جب ہمارے اپنے حکمرانوں کو عوام پر ترس نہیں آیا اور پاکستان ہر دن غریب لیکن اِس کے حکمران امیر ہوتے چلے گئے جن کے بیرون ملک اثاثے اور اُن کی مالیت انگلیوں پر شمار نہیں کی جاسکتی تو کس طرح اغیار سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کے مفاد میں سوچیں گے۔ قرض بحالی کے لئے پاکستان اگر آئی ایم ایف کی شرائط مان بھی لیتا ہے تو بھی ’آئی ایم ایف‘ کو سمجھنا پڑے گا کہ کورونا وبا کی وجہ سے پاکستانی معیشت ’امتحانی اور بحرانی دور‘ سے گزر رہی ہے۔