سالوں گزر گئے وہ تقریب اب بھی ذہن کے پردوں پر کبھی کبھی دستک دیتی ہے ۔یہ پشاور یونیورسٹی کا کانووکیشن ہال تھا‘پورا ہال بھرا ہواتھا۔طالب علموں کو ڈگریاں تقسیم کی جا رہی تھیں۔ایک خوبصورت منظر تھا۔ مہمانِ خصوصی ایک سیاسی اور حکومتی پارٹی کے امیر بھی تھے ۔ اس وقت وہ سینئر وزیر کے عہدے پر تھے۔ تقریب کے آخر میں انھوں نے اپنی تقریر میں بہت خوبصورت باتیں کیں۔میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ سٹوڈنٹس اور اساتذہ اور میڈیا کے نمائندوں سے ہال جھلمل جھلمل کررہا تھا۔انھوں نے کہا ہماری لڑائی اب میدانِ جنگ میں نہیں ہے ۔ہمارا مقابلہ جن قوموں سے آگے نکلنے میں ہے وہ قومیں کمپیوٹر لیبارٹری اور لائبریریو ںمیں بیٹھ کر دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔ہماری جنگ کمپیوٹر لیبارٹری او ر لائبریریوں میں ہے ۔مجھے ان کی باتیں بہت اچھی لگیں۔ پھر باتیں بھی تو سچی تھیں ۔پھر جدید زمانے کے مطابق تھیں۔لگ بھگ پندرہ بیس برس تو بیت ہی گئے ہیں ۔مگر آج آس پاس نظر جاتی ہے ۔ دنیا کے نقشے پرقوموں کے جغرافیہ پر نظر پڑتی ہے تو ان کی باتیں اب بھی زندہ و تابندہ لگتی ہیں۔آج تو اتنی ترقی ہو چکی ہے کہ آئے روز نئی کوئی اور ایجاد پچھلی ایجاد کو شکست دے کر پوری دنیاپر چھا جاتی ہے ۔ پھر اس کی خرید و فروخت پوری دنیا میں ہونے لگتی ہے ۔ہم اگر میدانِ جنگ میں کھڑے ہو کر لڑائی لڑیں تو ان قوموں سے جیت نہیں سکیں گے جو اپنے کمروں اور دفاتر میں بیٹھ کر کمپیوٹر کی بورڈ پر انٹر کا بٹن دبا کر پوری دنیاکو غارت کر دینے کی طاقت رکھتے ہیں ۔سو ہم نے اگر ان کو ہراناہے یاکم از کم ان کی برابری ہی کرنا ہے توہمیں تعلیم کے میدان میں آگے جانا ہے ۔اپنے معاشرے میں سائنسدان پیدا کرنا ہےں ۔ہمارے ہاں سیاستدان ہی پیدا ہوتے ہیں ۔ آنے والے زمانوں میں جنگیں بندوقوں اور کلاشنکوف سے نہیں لڑی جائیں گی۔ ایک قوم دوسری قوم کے تمام سسٹم کو منٹ اورسیکنڈ میں کمپیوٹر کے ذریعے ہیک کر لیں گی۔ وہ قوم جیت جائے گی اور وہ قوم جن کا تمام انتظام و بندوبست انٹر نیٹ پر بلاک کردیاگیا ہے اور برباد کر دیا گیا وہ ہارجائے گی۔ شکست خوردہ قوم اس جیت جانے والی قوم کی باج گذار بن جائے گی۔
آج کل بعض ملکوں میں اپنے بچوں کو دوسروں کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم ہیک کرنے کی کھلے عام تعلیم دی جاتی ہے ۔ ۔ اب وہ سیاروں کی طرف رخ کر کے نئے جہان تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے میں مجھے اقبال کی شاعری پر حیرانی ہوتی ہے کہ انھوں نے سو سال پیچھے وہ وہ باتیں کر دیں تھیں جو آج دھیرے دھیرے ہمیں درپیش آ رہی ہیں۔ انھیںکے اشعار دیکھیں” ستاروں سے آگے جہاں او ربھی ہیں۔ابھی عشق کے امتحاں او ربھی ہیں“۔ یہاں عشق سے مراد عشق و عاشقی اور رومانس نہیں ۔ اقبا ل کی شاعری میں عشق سے زیادہ تر محنت مراد ہوتی ہے ۔انسان جس سیارے مریخ پر جو ہمارا ہمسایہ ہے ابھی تک نہیں جا سکا اس سے آگے تو ستارے ہیں جو ہمارے موجودہ سورج کو چھوڑ کر کسی او رسورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔کیونکہ اس کائنات میں ایک ہی سورج تو نہیں لاتعداد ہیں۔اقبال نے کہا کہ محنت کے لئے ان ستارو ں سے آگے اور دنیائیں ہیں جن کو ابھی تسخیر کرنا باقی ہے۔” قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر ۔ چمن اور بھی آشیاں او ربھی ہیں“۔ظاہر ہے کہ اس شعر میں زمین کے ہرے بھرے چمن اور آشیانے مراد نہیں ” تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا۔ترے سامنے آسماں او ربھی ہیں “۔اس میں کیا شک کہ یہاں پہلے والا آسمان مراد نہیں۔پھر کہا ” انھیں روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا۔ کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں“۔اقبال کی شاعری تو اس قسم کے مضامین سے اس طرح بھری ہے جیسے شہد کی لچھی شہد سے لبالب بھری ہوتی ہے جس سے شہد ٹپک رہاہوتا ہے ۔” نہ تو زمیں کےلئے ہے نہ آسماں کےلئے۔ جہاںہے تیرے لئے تو نہیں جہاںکےلئے“۔” وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا ۔ یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے“ ۔ ان اشعار کی روشنی میں اگر دیکھیں تومعلوم ہوگا کہ ہم کہا ںجا رہے ہیں۔ہم دوسری قومو ں سے ترقی کی دوڑمیں کس قدر پیچھے ہیں ۔ہم تو جو ترقی کرے اس کی راہ میں کانٹے بکھیر دیتے ہیں۔جو اوپر جانے لگے اس کی ٹانگیں کھینچے ہیں۔ ہماری نا اتفاقی دوسری قوم کےلئے بہت پرکشش چیز ہے ۔اقبال ہی نے کہا ہے کہ ” منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ۔ ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک ۔حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک۔کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک ۔“یہ اشعار تواقبال نے پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی لکھے تھے۔ آج دیکھیں تو جو حالت سو سال پہلے تھی وہی حالات اب بھی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہم لوگوں کہاںجا رہے ہیں۔