22نومبر کو پشاور میں پی ڈی ایم جلسہ منعقد تو ہو گیا ہے البتہ جس غیر یقینی کی صورتحال میں یہ جلسہ منعقد ہوا ہے اس کا واضح اثر جلسہ عام کی حاضری اور شرکاءکے جوش و خروش پر بھی محسوس کیا گیا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اس جلسے جس کا پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو شدت سے انتظار تھا کے بارے میں حکومت اور اپو زیشن کی جانب سے متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں ۔ واضح رہے کہ حکومت پی ڈی ایم کے زیر بحث جلسہ عام کے حوالے سے آخر دم تک اپو زیشن کے خلاف کامیاب کارڈ کھیلتی رہی اور یہ حکومت کی اسی کامیاب حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ جلسے کے انعقاد کے حوالے سے آخری لمحات تک عام لوگوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے ورکرز بھی تذبذب کے شکار رہے کیونکہ جلسہ عام سے ایک دن قبل تک لوگوں کا خیال تھا کہ شاید اپو زیشن حکومتی ہتھکنڈوں کی آڑ میں کورونا کے پھیلاﺅ کے خطرات کو جواز بنا کر جلسہ ملتوی کر دے گی جس سے اگر ایک طرف وہ اپنا بھرم برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی تو دوسری طرف وہ جلسہ کی ناکامی کا داغ اپنے سینے پر سجانے سے بھی بچ جائے گی لیکن اپوزیشن نے خلاف توقع ایک سخت اور کٹھن فیصلہ کرتے ہوئے جلسہ ہر حال میں منعقد کرنے کے اپنے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھ کر حکومت کو یہ دو ٹوک پیغام دیا کہ وہ حکومت کو زرہ برابر ریلیف دینے کےلئے بھی تیار نہیں ہے۔ سیاسی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر پی ڈی ایم کی قیادت چاہتی تو وہ کورونا کی نئی لہر اور خاص کر خیبر پختون خوا او ر پشاور میں بڑھتے ہوئے کیسز کو جواز بناکر پشاور جلسہ عام کو ملتوی کر سکتی تھی لیکن حکومتی کوششوں کے باوجود پی ڈی ایم نے پشاور میں جلسہ منعقد کرکے اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے کا پیغام دے کر حکومت کو یہ باور کرا یاہے کہ اپوزیشن کی جاری کردہ تحریک اپنے منطقی انجام تک پہنچے بغیرنہیں رکے گی ۔ پشاور کے جلسہ عام کے بارے میں پی ڈی ایم کا دعویٰ تھا کہ یہ گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے جلسوں سے بڑا جلسہ ثابت ہوگا لیکن اس دعوے کے برعکس اگر ایک طرف حکومت اس جلسے کی پہلے سے ناکامی کی دعوے کر رہی تھی تو دوسری جانب اس نے سابقہ جلسوں کے بر عکس اس جلسے کو یا تو سرے سے نہ ہونے دینے اور یا پھر اس کی ناکامی کو بطور چیلنج قبول کیا تھا ۔ پی ڈی ایم کے جلسہ عام میں توقع سے نسبتاً کم حاضری کے بارے میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسکی ایک اور بڑی وجہ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والی بد اعتمادی اور ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لیجانے کے خبط کا سوارہوناہے جس کا اثر بحیثیت مجموعی جلسہ پر پڑنا ایک فطری امر تھا ۔ویسے بھی پی ڈی ایم چونکہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد ہے جس میں ملک کی گیارہ ایسی جماعت شامل ہیں جن میں اگر ایک طرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) جیسی بڑی ملک گیر جماعتیں شامل ہیں تو دوسری جانب جمعیت (ف) جمعیت علماءپاکستان اور جمعیت اہل حدیث جیسی مذہبی جماعتیں بھی اس کا حصہ ہیں جب کہ تیسری جانب اس میں نیشنل پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی، اے این پی اور قومی وطن پارٹی جیسی چھوٹی قوم پرست جماعتیں بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں لہٰذا ان تمام جماعتوں کے ملاپ اور خاص کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی پارٹیوں کی موجودگی میں اسکی قیادت جمعیت (ف) کو دینے سے بھی اس اتحاد کو پاکستان کی مروجہ اتحاد ی سیاست میں ایک منفرد مقام حاصل ہے جبکہ اس اتحاد کی ایک اور انفرادیت اسمیں جماعت اسلامی جیسی ملک کی منظم ترین سٹریٹ پاور رکھنے والی جماعت کا شامل نہ ہونا ہے لہٰذا اگر جماعت اسلامی بھی اس اتحاد میں شامل ہوتی تو اسے بلا شک و شبہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اور موثر اتحاد بننے کا اعزاز حاصل ہو سکتا تھا۔ بہر حال جماعت اسلامی اس بڑے اتحاد کا حصہ کیو ں نہیں بنی اور ملک کے موجودہ مخدوش سیاسی حالات میں اس نے تنہا پرواز کا مشکل آپشن کیوں چنا اس بحث سے قطع نظر جماعت اسلامی کے حوالے سے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے پچھلے دنوں باجوڑ سے حکومت مخالف اپنی جس احتجاجی مہم کا آغاز کیا تھا اس سلسلہ میں بونیر کے بعد اسکی جانب سے سوات میں ٹھیک اسی دن اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا گیا جس دن پشاور میں پی ڈی ایم اپنا پاور شو کر رہی تھی۔ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو پی ڈی ایم نے بڑی تعداد میں عوام کو فعال کرکے اپنا پیغام پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور حکومت کو ایک طرح سے بیک فٹ پر کھیلنے کا خوف بھی لاحق کردیا ہے تاہم ان سب کے باوجود اگر موجودہ حالات میں مفاہمت کی سیاست کی جائے تو یہ نہ صرف ملکی مفاد میں اہم ہے بلکہ عوام بھی اس کی توقع کررہے ہیں۔