ان دنوں تو سورج کا بادلوں کی اوٹ سے جھانکنا خوش قسمتی کے ساتھ لنک کرنے لگا ہے ۔ہمہ وقت بادلوں کی چادر سر پہ تنی ہوئی ہے ۔بندہ ایک سی حالت کوئی بھی ہو اس سے بیزار ہو جاتا ہے ۔بارشیں بہت سے لوگوں کو ا چھی لگتی ہیں ۔مگر یہی ابرو باراں ہیں کہ جس سے لوگ تنگ بھی ہو جاتے ہیں۔برفانی ہوائیں ہیں موسم کی یخی ہے اور ہم ہیں ۔نہ گھر میں گیس کہ چولھا جلا کر اندر کمرے میں اس پر ہاتھ تاپیں۔ اب سلینڈر بھی جلے گا توکتنا چلے گا۔ اس پرکھانا توپکائیں گے مگر ہاتھ گرم کرنے کہاں جائیں گے۔ نہ سر پہ سورج اور نہ پائپ لائنوں میں سوئی گیس۔پھر بجلی کا ہیٹر بھی تو چوبیس گھنٹے جلایا نہیں جا سکتا ۔مگر جو افورڈ کر سکتے ہیں وہ بھی اس مہنگی ترین بجلی کےلئے ترس گئے ہیں ۔بجلی بھی آنکھ مچولی کھیلتی ہے ۔کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ غریب غربا ایک بلب کی روشنی کے لئے ہلکان ہو ئے جاتے ہیں ۔گھروں میں چار سو اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔اوپر آسمان پر بھی دن کو تاریکیاں ہیں” فراز کاشعر یاد آیا ہے اور شعر کا یاد نہ آنااور پھر خاص طور پرکالم لکھتے ہوئے شعر کا یاد نہ آنا یاد نہیں ۔ یہ تو خود رو ایک کیفیت ہے ۔ ” ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز۔ رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ“۔ ان دنوں کی بادلوں کی چھایامیں شبِ تاریک کی سی کیفیت ہے ۔تو کیا ہم ہر وقت اب کمبل ہی میں گھسے رہیں گے۔ کیونکہ اندر باہر سرد ی کا عالم ہے ۔ہمارے ایک عزیز ڈاکٹر جب کسی کے گھر جاتے تو ہر آدمی ان کو دیکھ کر مریض بن جاتا ۔ کوئی کیا کہتا کو ئی پوچھتا۔ ہر آدمی اپنی بیماری کا علاج ان سے زبانی کلامی پوچھتا۔ ایک خاتون نے کہا سنیے میں جب کمبل سے پا¶ں باہر نکالوں تو پا¶ں دکھنے لگتے ہیں کیاکروں ۔اب اس مرض کا علاج تو یقیناً لقمان حکیم کے پاس بھی نہ تھا ۔ ڈاکٹر صاحب بھی کیا جواب دیتے۔پھر ہر مریض کو الگ الگ جواب دینا ہوتا ۔انھوں نے بیزاری سے منہ بنا کر جواب دیا کیا ضرورت ہے کمبل سے پا¶ں باہر نکالنے کی ۔سواس موسم میں وہی عالم ہے ۔ڈاکٹر صاحب کوتو انتقال فرمائے برسوں بیت گئے مگر بیماریاں ویسے کی ویسے اب تک موجود ہیں۔سوچتاہوں ہوتے تو ہم بھی ان سے پوچھتے کہ کیاان دنوںکمبل کو چھوڑاجا سکتاہے ۔پھر خاص اس موسم میں کہ صبح و شام بادل چھائے ہیں اور سردی نے جیسے تیز چھری ہوجس سے ہمیں یر غمال بنا رکھاہے ۔کیونکہ سنا ہے کہ کمبل ایک بار اپنالو تو آ پ بھلے کمبل کو چھوڑنا چاہیں مگر کمبل آپ کو نہیں چھوڑتا۔ویسے اس بارتو ٹھنڈ نے خوب حملہ آوری کی ۔بلکہ شب خون مارا ہے ۔سردی کا موسم اچانک آیا اور چھا گیا۔ بلکہ دیکھا بھی نہیں اور سب کچھ فتح کرلیا۔” ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں ۔تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا“۔اب جو مڈل کلاس والے ہیں وہ کہاں جا کر گرمی کی کلاس میں داخلہ لیں۔ گرمی کے موسم کو روتے تھے اب تو سردی نے بھی رلا کر رکھ دیا ہے۔سب کام دھندے چوپٹ پڑے ہیں۔پھر نومبرابھی ختم نہیں ہوا اور جب دسمبر آئے گا تو کیاہوگا ۔ پھر بھی تو جان نہیں چھوٹے گی اس کے بعد خیر سے جنوری بھی تو ہے۔موسم نے اپنے ترکش میں کیسے کیسے تیر سنبھال کر رکھے ہیں۔ شہریوں کو سہولیات ہوںتو سردی کچھ نہیں کہتی ۔مگر حالات یہ ہوں کہ چولھاہو تو اور ا س پر ایوبیہ کی برف باری کی تہہ جمی ہو تو بندہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ وہ علاقے تو خوش نصیب لوگوںکے پاس ہیں جہاں گیس جل رہی ہے۔پھر وہ کہ جہاں سوئی گیس کے زبانیں ہلاتے شعلے دھڑا دھڑ جل کر او ر جلا کر راکھ کر دینے کو تیار ہوں۔اوپر والے وہ ملک جہاں سورج نکلتا ہی نہیں یاد آئے ہیں ۔ جہاں پورا سال بادل کا سائبان تنا ہوتاہے۔کہیں اس شامیانے کی کسی درز میں سے سورج جھانک لے تو وہاں کے باسیوں کی عید ہو جاتی ہے ۔بادلوں کا بھی پتا نہیں لگتا ۔ ہمارے سیاستدانوں کی طرح بادل گرجتے تو ہیں مگر برستے نہیں اور برس جائیں تو کھل کر برستے نہیں۔ ابر چھایا ہواہے ۔ موسمیات والے دھمکیاں دے جاتے ہیں۔ کبھی کچھ کبھی کچھ کہتے ہیں ۔ان کا کہا ہوا پورا ہو یہ بھی تو ضرور ی نہیں ۔ اکتوبرمیں کہا دسمبر تک بارشیں نہیں ہیں۔ مگر نومبر میں پہلی بارش ہوئی اور اس کے بعد دوسری اور اب تو پانچویں بار ابرباراں مہربانی کر چکا ہے ۔پھر اب نئی کہانی سنائی ہے کہ بارش کا ایک اور نظام دسمبرمیں داخل ہورہاہے ۔پھر کیا پتا یہ سچ کہتے ہیں۔اب ہم ا س نظام کو بھی سہیں گے کیونکہ ہمارے ہاں اور کون سا نظام درست ہے ۔ پھر ہم نے تو جیداری کے ساتھ ہر نظا م کو دل پر سہا ۔پیاسے تو نہیں مگر بھوکے ضرورہیں۔ پانی بہت ہے مگر خوراک نہیں ۔کیونکہ پانی قدرت کی طرف سے ہے جس کو یہ کرتا دھرتا روک نہیں سکتے ۔مگر فوڈ پر یہ لوگ قبضہ کئے ہیں۔ مہنگا کر کے عام آدمی کی پہنچ سے دور کیا ہے۔وہ جو تین ٹائم کھاتے تھے وہ درمیانہ طبقہ اب نچلے طبقے کے ساتھ الحاق کر بیٹھاہے ۔وہ ایک ٹائم کھاتے ہیں تودوسرے وقت کے کھانے کاپتا نہیںہے ۔