امید ناامیدی

 

کورونا وبا دسمبر 2019ءمیں ظاہر ہوئی اور اِسی وجہ سے اِسے ’کوووڈ 19(Covid19)‘ کا نام دیا گیا‘ جس سے متاثرہ افراد ایک سال سے کم عرصے میں دنیا کے ہر ملک میں پائے جاتے ہیں لیکن جس تیزی سے یہ وبا عالمی سطح پر پھیلی ہے اُتنی ہی تیزی سے اِس کا علاج بھی ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ عموماً کسی مرض کا علاج اور اِس سے بچاو¿ کی ادویات (ویکسین) کی کھوج و تیاری کے لئے کم سے کم دس سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے کیونکہ کسی علاج کو کارگر بنانے اور اِس کی خصوصیات میں اِضافے کے لئے پہلے جانوروں اور پھر اِنسانوں پر تجربات کئے جاتے ہیں اور یہ مراحل عالمی ادارہ¿ صحت کے علم میں لانے کے بعد کئے جاتے ہیں جن کے اخلاقی و طبی پہلوو¿ں بھی ہوتے ہیں جو ایک الگ موضوع ہے۔ بہرحال بھلے ہی کورونا جرثومہ (وائرس) نے انسان کو مشکل میں ڈال دیا ہو لیکن اِنسانی عقل اِس امتحان میں سرخرو دکھائی دیتی ہے کیونکہ کورونا کے ظاہر ہونے کے صرف 10ماہ کے اندر ہی اِس کا 97 فیصد مو¿ثر علاج دریافت کر لیا گیا ہے اور یہ قطعی معمولی بات نہیں کیونکہ اب تک دریافت ہونے والی ادویات میں 97 فیصد کامیابی کی بلند ترین شرح ہے جو پہلی ہی کوشش میں حاصل کر لی گئی ہے اور اِس سے یہ اُمید بھی پیدا ہو گئی ہے کہ اگر مستقبل قریب میں جانوروں میں انسانوں میں کوئی دوسری ایسی بیماری منتقل ہوتی ہے تو اِنسانی عقل اُس کا بھی توڑ (علاج) ڈھونڈ لے گی لیکن اِس اُمید میں نااُمیدی چھپی ہوئی ہے۔ نااُمیدی اِس لئے کہ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ پوری دنیا کسی ایک مرض کے علاج کے لئے اِس طرح متحد ہوئی ہو۔ قدرت نے سبق دیا ہے کہ اگر دنیا متحد ہو جائے تو وہ ہر مشکل کا حل نکال سکتی ہے چاہے وہ مشکل کورونا وبا جیسی نہ نظر آنے والی وبا ہی کیوں نہ ہو۔ قدرت کی جانب سے پیغام ہے کہ ممالک کی جغرافیائی سرحدوں‘ رنگ و نسل‘ زبان و مذاہب‘ ترقی و پسماندگی اور معاشی و اقتصادی نظریات میں تقسیم دنیا کا ”بہتر مستقل“ آپسی اتحاد میں مضمر ہے۔کورونا کا علاج دریافت ہونے سے متعلق اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والی خبریں حوصلہ افزا ہیں تاہم اِس سلسلے میں دیئے جانے والے بیانات متصادم بھی ہیں۔ کسی علاج (ویکسین) کے بارے میں یہ کہنا وہ زیادہ مو¿ثر اور محفوظ ہے جیسا کہ آکسفورڈ ویکسین کے بارے میں دنیا کو باور کرایا جا رہا ہے اور اِس سلسلے میں ویکسین کے تجرباتی ابتدائی نتائج بھی شائع کئے گئے ہیں‘ جن میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ ویکسین استعمال کرنے کی وجہ سے ستر فیصد لوگوں میں کورونا وبا کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ یورپی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے حقائق و شواہد اور ماہرین کے تبصروں سے معلوم ہوا ہے کہ آکسفورڈ ویکسین کا انحصار اچھی قسمت اور سائنسی ذہانت کے علاو¿ہ ایبولا وبا سے ہے اور اِس کا تعلق بندروں کی ایک قسم (چمپینزی) کی بہتی ہوئی ناک سے بھی ہے جس پر تحقیق کرنے والوں کا شمار اِس وقت دنیا کے چند بڑے سرمایہ داروں میں ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ میں بیماریوں سے درپیش خطرات میں ایک بیماری ’ڈیزیز ایکس‘ کا ذکر ملتا ہے جو کسی نامعلوم جرثومے سے پیدا ہونے والی انفیکشن کا نتیجہ تھی اور اِس میں حیرت انگیز طور پر دنیا بھر میں پھیلنے کی صلاحیت بھی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تحت جینیفر انسٹی ٹیوٹ قائم کی گئی۔ یہ ادارہ اُس سائنسدان کے نام پر بنایا گیا تھا‘ جس نے 1776ءمیں علاج (ویکسین) دریافت کرنے کی کوشش کی اور آج تک دنیا کی ہر بیماری کا علاج دریافت کرنے کے لئے مذکورہ شعبہ شروع دن سے کوششیں شروع کر دیتا ہے۔ کورونا وبا کے منظرعام پر آنے کے فوراً بعد منصوبہ بندی کی گئی کہ کس طرح تھوڑے سے تھوڑے ممکنہ وقت میں ہم علاج (ویکسین) بنائی جائے تاہم ماضی اور آج کی ویکسین میں فرق یہ ہے کہ آج کے دور میں ٹیکنالوجی کی مدد سے تجرباتی مراحل اور نتائج جلد طے کر لئے جاتے ہیں اور کورونا وبا کی ویکسین دریافت کرنے کے سلسلے میں بھی ہونے والی کامیابی کے پیچھے ٹیکنالوجی (کمپیوٹروں) کا استعمال ہے۔ کورونا ویکسین کی دریافت کے تجربات کا نام ’پلگ اینڈ پلے‘ رکھا گیا کیونکہ اس میں نامعلوم دشمن سے نمٹنے کی 2 سب سے ضروری خوبیاں درکار تھیں ایک تو یہ بہت تیز اور دوسرا لچکدار ہونی چاہئے تھی تاکہ کورونا کا جرثومہ جتنا بھی تبدیل شدہ حالت میں حملہ آور ہو اِس کا علاج ہو سکے۔ روایتی ویکسین بشمول بچوں کے تمام امیونائزیشن پروگرام میں اصل انفیکشن کی مری ہوئی یا کمزور حالت کو استعمال کیا جاتا ہے یا اس کے کچھ حصے جسم میں داخل کئے جاتے ہیں لیکن ان کا بنانا سست رو ہوتا ہے جبکہ آکسفورڈ کے تحقیق کاروں نے بندروں کو لاحق عام زکام والے وائرس کو ایسی شکل دی کہ وہ کسی بھی ویکسین کی تیاری میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ کورونا سے پہلے ہی 330 افراد کو مختلف بیماریوں میں ’آکسفورڈ ون‘ ویکسین دی گئی چونکہ بندروں سے لیا گیا جرثومہ تبدیل شدہ ہوتا ہے اس لئے وہ انسانوں میں نئی انفیکشن پیدا نہیں کرتا اور اس میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے تاکہ جس کسی کا بھی جینیاتی بلیو پرنٹ اُس میں ڈالا جائے یہ اُسے ٹارگٹ کر سکے اور اِس ہدف بنانے کے طریقے کو تکنیکی اصطلاح میں ”انٹی جن“ کہتے ہیں۔ طبی ماہرین کے بقول گزشتہ بیس برس کے دوران 2 مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جرثومے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئے ہیں سائنسدانوں نے پہلے ہی تیاری کر رکھی تھی اور وہ شاید اِس انتظار میں تھے کہ کوئی بھی ایسا وائرس ظاہر ہو اور وہ ’سپائیک پروٹین‘ کے عمل کو آزمائیں۔ سپائیک پروٹین وہ کنجی ہے جس کے ذریعے وائرس انسانی جسم کے خلیوں کو کھولتے ہیں اگر کوئی دوائی امیون سسٹم کو ایسے تیار کرے کہ وہ سپائیک پر حملہ کر دے تو اس سے کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ خوش قسمتی سے کورونا وائرس کی انفیکشن بہت کم عرصے کے لئے ہوتی ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ اگر انسانی جسم کے مدافعاتی نظام کو مضبوط بنایا جائے تو اِس سے وائرس کو شکست قدرتی عمل ہی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دی جا سکتی ہے ۔