تعلیمی اداروں کی بندش

چاروں صو بوں سے وزرائے تعلیم کی آن لائن میٹنگ کے بعد تعلیمی اداروں کی بندش کے فیصلے کا اعلان ہوا تو اس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا نابالغ بچوں نے چھٹی کی خو شی منا ئی سنجیدہ حلقوں نے اس فیصلے پر تحفظا ت کا اظہار کیا ما ہرین تعلیم نے اس فیصلے کی مخا لفت کی بہر حال فیصلہ ہواہے اس پر عمل در آمد ہو گا وفا قی وزیر تعلیم شفقت محمود نے 100باتوں کی ایک بات کہی ہے کہ جا ن ہے تو جہاں ہے ہمیں سب سے پہلے طلباءاور طا لبات کی صحت کا خیال رکھنا پڑ تا ہے اور یہی ہماری ترجیح نمبر ایک ہے آگے جا نے کا راستہ کیا ہونا چاہئے ؟ اس پر ما ہرین تعلیم کی ایک آن لائن میٹنگ ہونی ضروری ہے ما ہرین تعلیم کی میٹنگ میں بنیادی ضروریات یعنی بیس لائن (Base line) کا پتہ لگ جا ئے گا ماہرین تعلیم وہ لوگ ہیں جو تعلیمی بورڈ وں اور یو نیورسٹیوں میں نصاب تعلیم ، تعلیمی سال کی تقویم ( کیلنڈر ) اور امتحا نا ت کی منصو بہ بندی کرتے ہیں بیس لائن کا تعلق انہی معا ملا ت سے ہے اور ان معا ملات میں اولیت سکو ل کو حا صل نہیں او لیت کا در جہ تعلیمی تقویم یا کیلنڈر کو حاصل ہے ہمار ا تعلیمی سال مارچ سے شروع ہو تا ہے اگلے سال کے ماہ فروری تک رہتا ہے دسمبر سے فروری تک پرائمری اور مڈل سکو لوں میں امتحا نات ہوتے ہیں اس حساب سے مارچ میں میٹرک اور اپریل میں انٹر کے امتحا نات ہوتے ہیں مئی اور جون میں گریجو یشن کے امتحانات ہوا کر تے ہیں اس کو تعلیمی کیلنڈر کہا جا تا ہے بات اس کیلنڈر سے شروع ہو نی چاہئے اگر تعلیمی بورڈ وں اور یو نیور سٹیوں کے ساتھ وابستہ ما ہرین تعلیم کی میٹنگ بلا ئی جائے تو وہ سب سے پہلے پورے تعلیمی نظا م کو دو حصوں میں تقسیم کر نیکی تجویز دینگے پہلا حصہ نر سری اور کے جی سے مڈل تک 10کلا سوں کا ہے ان کلا سوں کے امتحا نات سکول کی سطح پر ہوتے ہیں ان کلا سوں میں بچوں کی عمر یں 4سال سے لیکر 14سال تک ہو تی ہیں ان کے لئے الگ پا لیسی ہو نی چاہئے اعداد شمار کی رو سے طلباءاور طا لبات کی کل تعداد کا 70فیصد مڈل کلا سوں تک زیر تعلیم ہے اس گروپ کو یو نیور سٹی کی سطح پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کے ساتھ ایک ہی درجے میں رکھنا منا سب نہیں ہے اور یہ ایسا نکتہ ہے جو سیا ستدا نوں سے زیادہ اساتذہ کرام کے تجربے سے تعلق رکھتا ہے دوسرانکتہ آن لائن تعلیم کا ہے حکومت کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ سکو لوں ، کا لجوں اور یو نیورسٹیوں کے اساتذہ تعلیمی عمل کو آن لا ئن اسباق کے ذریعے جاری رکھیںگے یہاں ایک بار پھر ما ہرین تعلیم سے رجوع کرنا پڑتا ہے ما ہرین کہتے ہیں کہ مڈل اور پرائمری سطح پر تعلیم دینے والے سکو لوں میں 40فیصد پرائیویٹ سکو ل ہیں جن میں سے 5فیصد سکو لوں کے پاس آن لائن تعلیم کی سہو لت ہے 60فیصد سر کاری سکول ہیں جن میں آن لائن تعلیم کی کوئی سہو لت نہیں 50فیصد سر کاری سکو لوں میں بجلی اور پا نی بھی نہیں ہے چنا نچہ نر سری سے آٹھو یں جما عت تک پڑ ھنے والے بچوں اور بچیوں میں سے صرف 5فیصد کو آن لائن تعلیم کی سہو لت حا صل ہو گی یہ وہ سکول ہیں جو ما ہا نہ 10ہزار روپے سے زیا دہ ٹیویشن فیس لیتے ہیں ایسے بچوں اور بچیوں کے والدین بڑے شہروں کی بڑی بڑی کو ٹھیوں میں رہتے ہیں ان کے گھروں میںبھی آن لائن تعلیم کی سہو لیا ت میسر ہیں باقی 95فیصد وہ لو گ ہیں جن کو نہ سکول میں نہ گھر پر آن لائن تعلیم کی سہو لت دستیا ب ہے ظا ہر ہے کہ نر سر ی سے مڈل تک 10کلا سوں کےلئے آن لائن تعلیم نا ممکن ہو گی دوسرا درجہ میٹرک سے انٹر تک ہے اس سطح پر بھی سر کاری سکولوں اور کا لجوں میں آن لائن تعلیم کی کوئی سہو لت مو جو د نہیں پرائیویٹ سکو لوں اور کالجوں میں سے 50فیصد ادارے ایسے ہیں جو ادارے کی سطح پر دستیاب سہو لیات کے اعتبار سے آن لائن کلا سیں چلا سکتے ہیں تا ہم شرط یہ ہے کہ طلباءاور طا لبات کے پاس بھی گھروں میں آن لائن کلا سوں سے مستفید ہونے کے وسائل فراہم ہو سکتے ہوں گھروں کی سطح پر یہ سہولت بہت کم خو ش نصیبوں کو فراہم ہو گی کیونکہ دیہی علا قوں میں 80فیصد علا قے ایسے ہیں جہاں ڈی ایس ایل ، وائی فائی ، تھری جی اور فور جی کی کوئی سہو لت دستیاب نہیںاس طرح کے اعداد و شمار اور بیس لائن معلو مات ما ہرین تعلیم کی دسترس میں ہیں سیا ستدانوں کو ان چیزوں کا علم نہیں ‘تعلیمی اداروں کی بندش کے حوالے سے جو فیصلے کئے گئے ہیں ان فیصلوں سے پہلے ما ہرین تعلیم کی رائے نہیں لی گئی تعلیم بورڈ وں اور یو نیورسٹیوں کے حکا م کو اعتما د میں نہیں لیا گیا اب بھی وقت ہے حکومت اگر متعلقہ اداروں کو مشاورت میں شامل کر ے تو آئندہ سال کےلئے تعلیمی کیلنڈر بنا نے میں آسا نی ہو گی ۔