جنسی زیادتی کے مجرموں کو نامرد بنانے کے قانون کی منظوری 

 

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020کے مسودہ کو حتمی شکل دے دی کابینہ کمیٹی نے جنسی تشدد اور ریب کے خلاف دو نئے آرڈینسز کی منظوری دیدی ہے۔

وفاقی کابینہ کی اصولی منظوری کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020کے مسودہ کی حتمی منظوری دے دی۔

 اس قانون میں 10سے 25 برس قید کے علاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں ہوں گی۔ کیمیکل کیسٹریشن کچھ کیسز میں مخصوص مدت کیلئے یا زندگی بھر کیلئے ہو سکے گی۔

وزارت قانون و انصاف نے انسداد جنسی زیادتی قانون کے خدوخال جاری کردیے جس کے مطابق جنسی زیادتی کے ملزمان کو نامرد کرنا ان کی رضامندی سے مشروط کر دیا گیا۔

وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس ہوا جس میں اینٹی ریپ آرڈیننس 2020اور فوجداری قوانین ترمیمی آرڈیننس 2020 کی منظوری دے دی گئی۔

 دونوں آرڈیننسز کو حتمی منظوری کے لیے جلد صدر مملکت عارف علوی کے پاس بھجوایا جائے گا۔ صدر مملکت کے دستخط کے بعد دونوں قوانین نافذالعمل ہوجائیں گے۔

وزارت قانون نے بتایا کہ مجرموں کو ان کی رضامندی سے کیمیائی طریقہ سے نامرد کیا جائے گا، انہیں نامرد کرنا انکی بہتری کی جانب ایک قدم ہوگا، زیادتی کے ملزمان کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں ہوگا، اور مقدمات کا فوری اندراج کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی ذمہ داری ہوگی۔

اعلامیہ کے مطابق زیادتی کے شکار افراد کے طبی معائنے کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوگااورکوئی غیر انسانی طریقہ کار اپنانے نہیں دیا جائے گا اور متاثرہ افراد سے جرح صرف جج اور ملزم کا وکیل کر سکے گا، مقدمات کا ٹرائل ان کیمرا ہوگا، نادرا ذیادتی کرنے والے تمام ملزمان کا ڈیٹا مرتب کرے گا۔

وزارت قانون نے ضابطہ فوجداری میں لفظ زیادتی کی تعریف میں بھی ترمیم کا فیصلہ کرتے ہوئے بتایا کہ زیادتی کی تعریف میں اب ہر عمر کی خواتین اور 18 سال سے کم عمر مرد شامل ہونگے۔

 اینٹی ریپ اور کرمنل لا ترمیمی آرڈیننس 2020 کی منظوری دی گئی۔ نئے آرڈیننسز کے ذریعے خصوصی عدالتیں قائم کر کے جنسی تشدد اور ریپ کے واقعات کو روکا جائے گا۔

اینٹی ریپ آرڈیننس 2020  کے مسودے کے مطابق زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ 

کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں اینٹی ریپ کرائسز سیل قائم کیے جائیں گے۔مسودے کے مطابق ریپ متاثرین کو لیگل ایڈ اور جسٹس اتھارٹی کے تحت قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔

 خصوصی عدالتوں کیلئے اسپیشل پراسیکیوٹرز تعینات کیے جائیں گے۔

مسودے کے مطابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیاں تحقیقات کریں گی۔ جنسی

 تشدد کرنے والوں کا ڈیٹا نادرا کے ذریعے رجسٹر کیا جائے گا۔وزارت قانون اعلامیہ کے مطابق زیادتی میں ملوث ملزمان کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں ہوگا۔