کورونا وبا دنیا بھرکے لئے اُس وقت تک خطرہ ہے جب تک اِس کا علاج (ویکسین) ہر خاص و عام کی پہنچ میں نہیں آ جاتا اور اِس سلسلے میں ابتدائی مراحل میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہ سب کی سب بیانات کی حد تک ہیں کیونکہ تاحال کوئی ایک بھی ایسی ویکسین نہیں جس کی صنعتی پیمانے پر تیاری شروع کر دی گئی ہو۔ اب تک کورونا وبا سے بچاو¿ اور اِس کاممکنہ علاج دریافت کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور کوششوں کے اِس دور میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اُمید ہے کہ جلد ہی متعدد مو¿ثر و کارگر طبی و سائنسی طور پر مصدقہ علاج (ویکسینز) کے ذریعے عالمی وبا پر قابو پا لیا جائے گا۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق موجودہ صورتحال میں بہت سے سرمایہ دار جلد سے جلد تجرباتی ویکسینز حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایسے لوگ بھی ہیں جو دوائی کے آزمائشی و تجرباتی مراحل میں رضاکارانہ طور پر شریک تو ہوئے ہیں لیکن اب ایک انجان دوا کو اپنے جسم میں داخل کرنے کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اگر کورونا ویکسین دستیاب ہو بھی جائے تو کیسے معلوم ہو گا کہ یہ جان لیوا نہیں؟ درحقیقت یہی وہ پہلا اور بنیادی سوال ہے جو سائنسدان کسی بھی ویکیسن کی تیاری اور اس کی جانچ یا طریقہ¿ علاج کو شروع کرنے سے پہلے پوچھتے ہیں۔ دوا کی دریافت اور تجربات کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اِسے جانوروں یا انسانی خلیوں پر آزمانے کے بعد انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے لیکن کورونا وبا کے خلاف چونکہ ویکسین کی تیاری جلد چاہئے تھی اِس لئے براہ راست انسانی جسم پر اِس کے تجربات کئے گئے ویکسین کی منظوری کے بعد بھی اس کی جانچ کا عمل شروع ہوتا ہے تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے کوئی مضر صحت اثرات یا دور وقتی اثرات نہیں۔ اس وقت کئی کمپنیاں کورونا ویکسین تیار کر رہی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹرازنیکا کی تیار کردہ ویکسین میں ایک غیر نقصان دہ (کمزور) وائرس کا استعمال کیا گیا ہے جو سارس کووڈ ٹو یعنی کورونا وائرس سے مشابہت رکھتا ہے اِن دنوں تحقیقی طبی جریدوں اور سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے مضامین خاصے دلچسپ ہیں جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کورونا کے خلاف ادویات میں المونیم و دیگر اجزا¿ کا استعمال بھی کیا گیا ہے تاکہ ان کو زیادہ مستحکم اور مو¿ثر بنایا جا سکے۔ انسانی عقل و علوم کے ارتقائی مراحل اور طبی تحقیق کے شعبوں میں سوچ بچار سے اب تک جتنی ویکسینز بھی تیار کی گئی ہیں اُن سے انسانوں اور جانوروں جیسا کہ مرغیوں میں مختلف بیماریوں کو بڑی حد تک کامیابی سے کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اَدویہ ساز تحقیقی اِدارے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کےلئے کوشاں ہیں۔ اہل پشاور کی اکثریت اگر صبروتحمل‘ برداشت اور عقل سے کام لیتے ہوئے ’کورونا قواعد (SOPs)‘ پر اِس اُمید کے ساتھ عمل درآمد کرے تو دیگر بہت سی مشکلات (بیماریوں) کی طرح اِس مشکل (بیماری) کا حل بھی جلد برآمد ہونے کی اُمید ہے۔ یہی وہ مرحلہ¿ فکر ہے جہاں ’اُمید پر قائم دنیا‘ اور ’یقین پر قائم عمل‘ کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔