وہ دن گئے کہ کہتے تھے ” سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں۔اب تو بات نہ ہی کریں تو بہتر ہے ۔بعد میںجب کورونانہ رہے تو بات کر کے دیکھ لیں گے۔اقبال کے کہنے پر ” یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں ۔ یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری “۔غالب نے جیسے کہا ” بات پر واں زبان کٹتی ہے“۔ پھر غالب ہی کا شعر ” ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے “ ۔جو زبانیں منہ میں ہےں وہ زباندانی کے ہوتے ہوئے اب خاموش ہی رہیں تو بہتر ہے ۔کسی سے حال احوال تک پوچھنے کی ضرورت نہیں ۔کیونکہ بات کی نہیں اور کوروناسامنے والے کو یا سامنے والے سے خود کو منتقل ہوانہیں ۔اب تو پھر سے محفلیںچھوٹ گئی ہیں۔ شہر میں بال بنا کر کہاں جائیں کس سے ملیں آدمی آدمی سے ڈرنے لگا ہے ۔ہاتھ پیچھے باندھ لیں یا سینے پر ہاتھ پہ ہاتھ دھر لیں۔ اگر کوئی ملے تو گلے ملنا دور کی بات اس سے ہاتھ ملانا بھی خواب و خیال ہوچکاہے ۔ اب تو بات کرنے پر خوف کا سایہ سر پر لہراتا ہے ۔کہا گیا ہے کہ کوروناہر ایک کو ہوگا۔مگر واحد صورت کہ احتیاط کریں۔ بعض مہربان ایسا کرنے سے قاصر ہیں ۔ طرح طرح کی افواہیں ہیں۔ دل کامریض ہے گھر میں دنیا چھوڑ جاتا ہے اور اسے ہسپتا ل نہیں لے جاتے کہیں اس کو وہاں کورونا ہی لگ نہ جائے۔ اگر یہ حال ہو تو پھر کیا حال ہو ۔کالجیں سکول یونیورسٹیاں بند ہو چکی ہیں۔ ایک طرف سردی نے سائے گہرے کر دیئے ہیں تو دوسری طرف ان اندھیروں میں نامراد وائرس نے آکر لوگوں پر چھپ چھپا کر نئے انداز سے اور نئے سر ے سے وار کرنا شروع کر دیئے ہیں۔دکانداروں کو اور ملازمین کوروٹی پانی کا غم از سرِ نو ستانے لگا ہے۔تعلیمی اداروں کے باہر چھولے والے تکے والے کاپیاں کتابیں بیچنے والے ہر قسم کی ہتھ ریڑھی نایاب ہے ۔کالجوں سکولوں کے مین گیٹ پرجہاں بہار ہواکرتی تھی وہ دروازے سنسان پڑے ہیں ۔کالج کے اندراگر اساتذہ کا آنا منع نہیں ۔مگر اندر پڑھنے پڑھانے لکھنے لکھانے کے مراکز خالی ڈھنڈار ہیں نہ بندہ نہ انسان اگر ہیں تو پتوں بوٹوں میں درختوں میں بلیاں یا گلہریاں کہاں سے درخت سے چپٹ کر اترتی ہوئی دوسرے درخت پر چڑھ جاتی ہے ۔کہیں تو کتے لوٹتے ہیں ۔شادی ہالوں پر الگ چھاپے پڑ رہے ہیں۔ شاید ا س دنیا پر اس سے زیادہ کڑا وقت پہلے کبھی نہ آیا ہو۔ خاندانی طور پر ملناملاناہے ۔بھلے چنگے ہاتھوں کو بھی بار بار دھونا پڑتا ہے ۔ لوگوںسے اب ہاتھوں کے بجائے کہنیاں ملائیں تو اگلا برا بھی مناتا ہے۔ایک عجیب گو مہ گو کی کیفیت ہے ۔شہر والے اگر سمجھ رکھتے ہیں تو وہیں کورونا کو جھوٹ سمجھنے والوں کی کافی سے زیادہ تعداد موجود ہے ۔ پھر گا¶ں او رپرگنوں میں تعلیم کے سنٹر نہیں او ر وہاں کورونا کی بھرپور آگاہی نہیں تو اس کے باوجود وہاں آٹے میں نمک کے برابر کورونا کو سمجھنے والے اور اس کی غارت گری کے گواہ موجود ہیں۔ اس وقت تو سر میں درد ہو یا جسم میں کہیں درد کی سی کیفیت ہو تو پہلا خیال یہی آتاہے کہ ہمیں کورونانے آن گھیرا ہے ۔ کورونا کے بعض شکار ہونے والے اس حد تک بیمار ہوئے کہ صحت یاب بھی ہوگئے مگر نفسیاتی مریض بن گئے ہیں۔ہمہ وقت اب تو ان کے ہونٹوں پر ماسک ہے۔ سوشل میڈیا پر طرح طرح کے نسخے بتلائے جا رہے ہیں جن میں مشکل بھی ہیں اور آسان بھی ہیں ۔بعض کہتے ہیں کہ زیتون کے قطرے ناک میںڈالو اور پھر کچھ دنوں کے بعد دیکھو۔ خداکرے یہ سچ ہو۔ وہاں کوروناکی ویکسین کے بنالینے کا معاملہ بھی تاخیر سے ہے ۔ تب تک کئی جوانیاں کئی زندگیاں برسرِ خاک ہو جائیں گی ۔ کتنے چلے گئے اور کتنے خدانخواستہ اور بھی اپنا چراغ گل کر بیٹھیں گے۔ہر چار منٹ بعد دنیا میں کورونا کا ایک مریض موت کے منہ میں جا رہاہے۔پچھلے لاک ڈا¶ن میں ہم نے کیا کرلیا اور جو اب کے اگر لاک ڈا¶ن کے لوہے کا بھاری طوق گلے میں پہن لیا تو بھوکے ہی مریں گے۔لاک ڈا¶ن نہیں لگے گا۔ مگر آثار بتلاتے ہیں کہ کل کو اس کا حکم نامہ جاری ہو سکتا ہے ۔معاشرے میں ایک افراتفری کا عالم ہے ۔اب کے کورونا کے وار بہت گہرے اور کاری ہیں۔سمارٹ لاک ڈا¶ن، مائیکرو سمارٹ لاک ڈا¶ن، سپاٹ لاک ڈان او رنجانے کون کون سے نام سن رہے ہیں۔ مگر پچھلے دور کے بعداب کے سردی کے اس دورے میں کورونا اگر شدید ہے تو اس کے برخلاف عوامی شعور پہلے سے زیادہ اجاگر اور قوت والا ہے ۔ اگر ہم دوسروں سے ہاتھ نہ ملائیں ماسک پہنیں تو اس پر قابو پایا جا سکتاہے۔اب پھر سے شہریوں نے جنازوں تک میں شرکت کرنا چھوڑ دیا ہے۔شادیوں کی دعوت کے ہوتے ہوئے وہاں بعض لوگ نہیں جا رہے ۔مگر ان کی مثال کبوتر جیسی ہے کہ بلی کا سامنا ہو تو آنکھیں بند کرلے۔ کیونکہ اگر ایک اکیلا بندہ گھر سے نہیں گیاتو اور گھر کے باقی کے افراد کسی تقریب میں شریک ہوئے او رلاپروائی کی تو وہ وہاں سے کورونا لے کر گھر آجائیں گے۔ پھر جو صاحب اپنے آپ کو احتیاط کے طور پر گھر میں قید کئے ہیں اگر وہ نہ پہنچے تو کورونا ان تک خود بخود پہنچ جائے گا۔