اکتوبر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کو انڈیا میں اپنے دفاتر بند کرنے پڑے کیوں کہ بھارتی حکومت سرکاری معاملات میں شفافیت کے لئے اس کے مطالبات، دہلی کے مسلم مخالف فسادات میں پولیس کی طرف سے ہندو بلوائیوں کی مدد اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بھارتی حکومت کے کردار پر اس کے جاری کردہ رپورٹوں اور امریکی کانگریس میں بھارتی حکومت کے خلاف اس کی بریفنگ سے ناراض ہو گئی تھی۔ مودی حکومت بھارت کو ایک پارٹی ریاست بنانا چاہتا ہے۔ اس کے آنے کے بعد بھارت میں اختلاف اور تنقید کے لئے برداشت ختم ہوگئی ہے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کو غدار اور پاکستان کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ مودی حکومت کے امتیازی قوانین کے خلاف بات کرنے پر دہلی کی جواہر لعل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں جیل بھیجا گیا۔ ستائیس سالہ کشمیری طالبہ سفورا زرگر بھی شہریت ترمیمی بل کے خلاف بولنے پر جیل میں ہے۔ شرجیل امام کے خلاف استغاثہ نے بغاوت اور غداری کے مقدمہ میں مشہور ماہر سیاست پال براس کی کتاب پڑھنے کا بھی ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے بقول وہ انتہاپسند بنا۔ تنگ نظری کے خلاف بولنے کئی آزاد منش زعماءمثلاً ایم ایم کلبرگی، نریندرا ڈابھولکر، گوویند پنساری اور گوری راکیش کو مبینہ طور پر دائیں بازو کے ہندو انتہاپسندوں نے قتل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کے قیام کے بعد بھارت میں شہری آزادیوں، اظہار کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور اکیڈمک آزادی وغیرہ کا گراف ماضی کے مقابلے میں تقریباً تین گنا نیچے آیا ہے۔ اکتوبر میں ہی مشہور بھارتی اداکارہ دیپکا پڈوکون سے بھارت کی نارکاٹکس کنٹرول بورڈ نے چھ گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔ وجہ بظاہر تو منشیات کی تحقیقات بتائی گئیں لیکن دراصل اس کی وجہ یہ تھی کہ دیپکا نے جنوری میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف طلباءتحریک سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔ اس اقدام کے ذریعے اسے اور باقی بالی ووڈ کارکنوں کو بھی لائن پر آنے کا پیغام دیا گیا۔اس سال گاندھی کے جنم دن تیس جنوری کو ایک ہندو نوجوان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پرامن ریلی پر فائرنگ کی لیکن پولیس خاموش تماشائی کے طور پر کھڑی رہی۔ پچھلے سال کے نیوزی لینڈ کے شوٹر کی طرح اس نے اپنی کچھ کاروائی فیس بک پر براہ راست دکھائی۔ اس کے کور فوٹو میں وہ تلوار لئے کھڑا تھا اور اس کی فیڈ میں لکھا تھا کہ وہ شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے اس شوٹر کو بھی وہی نفرت اکسا رہی تھی جس نے گاندھی کو قتل کروایا۔ مودی جب 2014 میں وزیر اعظم بنا تو وہ کافی احتیاط کرتا تھا۔ وہ ”سب اکٹھے اور ترقی سب کے لئے“ کی بات کرتا تھا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ ہندو ریاست کی بات ہونے لگی اور ہندو انتہاپسندوں کے ہاتھوں ”گاو¿ ماتا“کے تحفظ کے نام پر مسلم مخالف اقدامات کی انہوں نے مذمت نہیں کی لیکن جب 2019 ءمیں اسے بھاری اکثریت ملی تو اس نے سارے نقاب اتار پھینکے اور بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنانے پر تل گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اور بھارتی آئین میں کشمیر کو حاصل خودمختار حیثیت منسوخ کرکے اسے بھارت کا نارمل حصہ بنادیا اور کشمیر کو عملاً جیل اور عقوبت خانے میں تبدیل کردیا۔ نہرو نے کہا تھا ”کشمیری اگر ہمارے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تو وہ اپنی راہ لیں اور ہم اپنی۔ ہم زور زبردستی کی شادی اور اتفاق نہیں چاہتے“۔ مگر مودی نے تو کشمیر کو بھارتی آئین میں حاصل لولی لنگڑی خودمختاری ختم کردی ۔دسمبر 2019 میں بھارت کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی جس کے ذریعے چھ پڑوسی ملکوں سے بھارتی شہریت کے خواہشمندوں کو اجازت دی گئی مگر مسلمانوں کو اس سے نکال دیاگیا۔ اس کے بعد مختلف ہندوستانی ریاستوں میں قومی رجسٹر کی مہم شروع کی گئی جس کے ذریعے ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوجانے والوں کی شہریت منسوخ کرنے کا خطرہ پیدا ہوا۔ آر ایس ایس عرصے سے کہتی رہی ہے کہ بھارت کو ایک ہندو ریاست ہونا چاہئے۔ اس وقت بھارت کے اکثر ہندو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں یا ان سے ڈرتے ہیں۔ بھارت میں میڈیا بھی اسلاموفوبیا بڑھانے اور مودی حکومت کی خوشنودی میں لگا ہوا ہے۔ ان تمام واقعات سے واضح ہوجاتا ہے کہ بھارت ایک فسطائی ریاست بننے کی راہ پر ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار کی بھوک میں کس طرح امریکی جمہوریت کو شدید تناو¿ اور خطرے سے دوچار کیا۔ اس کے دوست مودی کو بھی بھارت کی بین الاقوامی شہرت اور جمہوری خصوصیات کی کوئی فکر اور لحاظ نہیں۔مشہور اخبارات جیسے اکانومسٹ، دی پوسٹ، نیو یارک ٹائمز، وال سٹریٹ جرنل وغیرہ میں مودی کے انتشاری ایجنڈا اور عدم برداشت پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن مودی کے پاپولسٹ بیانیہ کی ضد مزید پکی ہوتی جارہی ہے ۔ مشہور صحافی خشونت سنگھ نے اپنے ایک کالم میں سچ کہا تھا کہ ”نفرت کی بنیاد پر بننے والا گروہ ڈر اور خوف پیدا کرکے اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔بھارت میں جو لوگ سکھ اور مسلمان نہ ہو کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔