جمہوری اسلامی ایران کے جوہری پروگرام کے خالق ڈاکٹر محسن فخری زادہ کی ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا جس نے تردید نہیں کی ہے اور ظاہر ہے کہ ایران کے اندر اِس قسم کی کاروائی امریکہ کی تائید و منظوری اور تکنیکی و افرادی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ یادش بخیر چند روز قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بارے میں لکھا تھا کہ اُس میں صدر ٹرمپ نے ایران کے کسی جوہری پروگرام کے مقام پر حملے کے لئے قومی سلامتی ٹیم سے مشاورت کی تھی پھر امریکی اور اسرائیلی میڈیا نے اسرائیلی وزیرِاعظم کے دورہ سعودی عرب کے فوری بعد رپورٹ شائع کی کہ ایران پر ممکنہ امریکی حملے اور ایران کی جوابی کاروائی کے پیش نظر اسرائیلی قیادت نے فوج کو تیاریوں کی ہدایت کی ہے۔ یہ تمام خبریں خطے میں ایک نیا اور خطرناک منظرنامہ پیش کر رہی ہیں اور ان سب میں ایک خاص ربط بھی موجود ہے‘ جسے جاننا اور جس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ جو بائیڈن ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں اور جوہری پروگرام پر ہونے والے بین الاقوامی معاہدے میں واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں‘ جو اسرائیل کی شدید مخالفت کے باوجود ڈیموکریٹ انتظامیہ نے کیا تھا‘ اسرائیلی حکمرانوں کو صدر ٹرمپ کی صورت میں وائٹ ہاو¿س میں ایسا اتحادی مل گیا تھا جس نے ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا بلکہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباو¿ کی پالیسی اپنا کر اُسے معاشی طور پر اس قدر مجبور بنا دیا کہ وہ القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کےلئے کوئی بڑی کاروائی تاحال نہیں کرسکا۔اور اب یہ کوششیں ہورہی ہیں کہ بائیڈن کو دوہزارپندرہ کے امریکہ ایران جوہری معاہدے پر واپسی سے روکا جاسکے اور یہی مقصد ٹرمپ انتظامیہ کا بھی ہے۔ صدر ٹرمپ نئے صدر جو بائیڈن کو کسی نہ کسی امتحان میں ڈال کر ہی وائٹ ہاو¿س چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن انتقالِ اقتدار کا عمل شروع ہوچکا ہے اور پینٹاگون سمیت تمام اہم ادارے نو منتخب صدر کو بریفنگ دے رہے ہیں اور نئی انتظامیہ کو اداروں تک رسائی دی جاچکی ہے۔ ان حالات میں امریکہ کے ایران پر براہِ راست حملے کا امکان تو کم ہے لیکن حملے کے امکانات یکسر مسترد نہیں کئے جاسکتے جس کے لئے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ‘ اسرائیل رضامند و متفق ہیں۔ تہران میں جوہری پروگرام کے معمار محسن فخری زادہ کا قتل ایران پر حملے کی جانب دوسرا قدم ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم ایران کے خلاف اتحادیوں کی تلاش میں ہے اور یوں لگتا ہے کہ مائیک پومپیو ایران پر اسرائیلی حملے کی خاموش وکالت کےلئے خطے میں موجود تھے اور وہ خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ ایران کو اُکسا رہا ہے کہ وہ اپنے جوہری سائنسدان پر حملے کا جواب دے اور جنگ چھڑ جائے جبکہ ایران ایسی کسی کھلی جنگ سے گریز کر رہا ہے اور اگرچہ ایران کے پاس سوائے دانشمندی (صبر) کے مظاہرے سوا کچھ بھی باقی نہیں لیکن ایران اپنے جوہری بم بنانے کے عزائم سے اِس قسم کے دباو¿ سے دستبردار نہیں ہوگا بلکہ پہلے سے زیادہ وسائل اور توجہ اُس عمل کو مکمل کرنے پر خرچ کرے گا جو محسن فخرزادے کی شہادت سے ’بظاہر متاثر‘ دکھائی دے رہا ہے۔