پیپلزپارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اِس کا قیام ایک نظریئے (خاص ضرورت) اور حکمت ِعملی کو مدنظر رکھتے ہوئے ’30نومبر 1967ئ‘ کے روز عمل میں لایا گیا۔ اِس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر ملتان میں محترمہ بینظیر بھٹو کی صاحبزادی ’آصفہ بھٹو‘ نے عملی سیاست کا آغاز کیا وہ اپنی والدہ جبکہ اُن کے مقابل مریم نواز اپنے والد کے سیاسی نظریات کی محافظ ہیں لیکن آخر وہ کونسی سیاسی میراث ہے جو اِن دو بڑی سیاسی جماعتوں (پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز) نے اپنی نسلوں کو منتقل کی ہے اور جس پر بھٹو اور شریف خاندان کی نئی نسلیں فخر کر رہی ہیں!؟ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈیم ایم) کی روح رواں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ”سیاسی سرپرست (پولیٹیکل گارڈین)“ کا کردار ادا کر رہے ہیں جنہوں نے بلاول بھٹو کو خطابت سیکھنے اور جوہر دکھانے کا موقع فراہم کیا اور اب آصفہ بھٹو و مریم نواز کی پشت پر کھڑے ہیں۔ اِس عرصے میں مریم نواز نے بلاول بھٹو سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں اور اُن کی خطابت ہر جلسے کے بعد پہلے سے زیادہ بہتر اور اُبھر کر سامنے آ رہی ہے۔ قومی سیاست میں خواتین کی شراکت داری میں اِضافے اور اَہم سیاسی جماعتوں کی قیادت میں خواتین کی اِس طرح صف اوّل کی شمولیت اپنی جگہ اَہم‘ خوش آئند اور حوصلہ اَفزا¿ ہے کہ اِس سے خواتین براہ راست سیاست کی طرف راغب ہوں گی اور جہاں پڑھی لکھی قیادت سامنے آئے گی‘ وہاں سیاسی کارکن بھی پڑھے لکھے ہوں گے۔حزب اِختلاف کی سیاسی جماعتوں کے جاری اِحتجاج کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ اِس سے حکومت تبدیل نہیں ہو گی اور نہ ہی قبل ازوقت انتخابات ہوں گے لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں حزب اختلاف کے احتجاج کے نتیجے میں ہمیشہ حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں ۔ اِس سلسلے میں ملتان جلسے سے قبل مولانا فضل الرحمن کا یہ بیان بطور خاص توجہ طلب ہے جس میں اُنہوں نے اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ ڈنڈے کا جواب ڈنڈے سے دیں! یعنی قانون ہاتھ میں لیں۔ اگر حزب اختلاف کا احتجاج کسی مرحلے پر (لاہور جلسے سے پہلے یا بعد میں) اِس انتہا کو پہنچ جائے کہ قانون ہاتھ میں لے لیا گیا اور حکومت کی رٹ باقی نہ رہی تو قبل اَز وقت اِنتخابات ضروری (ناگزیر) ہو جائیں گے! فی الوقت حزب اختلاف کی گیارہ جماعتوں نے ٹھان لی ہے کہ سویلین بالادستی کا خواب پورا کرنا ہے‘ مگر کیسے؟ اس ایک سوال کا جواب شاید کسی کے پاس موجود نہیں۔ حزب اختلاف کا مو¿قف تضادات کا مجموعہ ہے، مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں سیاسی جماعتیں حکومت کا فوری خاتمہ اور نئے انتخابات کی خواہش مند ہیں اور چاہتی ہیں کہ وسط مدتی انتخابات کا انعقاد ہو مگر یہ سب کیسے ہو گا؟ کون طاقتور حلقوں کو باور کرائے گا کہ یہ سب ممکن بنایا جائے؟ ہو سکتا ہے کہ اس کا ایک طریقہ عوامی طاقت ہو‘ عوام لانگ مارچ کا حصہ بن جائیں اور شاہراہ دستور تک پہنچ جائیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ مارچ تو کپتان نے بھی کیا تھا لیکن اس کے باوجود نواز شریف کی حکومت ختم نہ ہو سکی تھی۔ اس وقت سیاسی جماعتیں پارلیمان میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئیں اور یوں ’انقلاب‘ عین پارلیمان کے سامنے دم توڑ گیا۔ بہر حال جس رفتار سے حزب اختلاف کی جماعتیں ایک سیاسی بیانیہ بنا رہی ہے اور ’بدعنوانوں‘ پر حکومتی بیانیہ اپنی کارکردگی کی بنا پر جس قدر دن بہ دن کمزور پڑ رہا ہے تو ممکن ہے کہ حکومت برقرار رہے لیکن اِس کی رٹ کمزور رہے گی۔ تحریک انصاف کے لئے اِس پوری صورتحال سے خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کی واحد صورت یہ ہے کہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے۔ مہنگائی میں کمی اور ادارہ جاتی اصلاحات پر توجہ دی جائے۔ دوسرا کوئی حل نہیں اور انتخابی اصلاحات جن میں الیکٹرانک ووٹنگ پر انحصار ہو کے بغیر اگر عام انتخابات جیسی مشق کی جائے گی تو اِس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ سیاسی جماعتوں کا اگر ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تو وہ مستقبل میں بھی عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے اور یوں بلی و چوہے کا کھیل جاری رہے گا جس میں سارے کا سارا نقصان (خسارہ) عام آدمی (ہم عوام) کا ہو رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے وارث میدان میں اُتر چکے ہیں‘ جن کی تربیتی مشقوں کے جاری سلسلے میں عوامی اجتماعات کے بعد شہر شہر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا جس سے معمولات زندگی جو پہلے ہی کورونا وبا کے سبب متاثر ہیں‘ عملاً معطل ہو جائیں گے۔ صورتحال تشویشناک ہے کہ سیاسی کھینچاتانی میں حزب اقتدار و حزب اختلاف کو عام آدمی (ہم عوام) کی مشکلات کا احساس نہیں۔ مہنگائی اور روزگار کے کم ہوتے امکانات کو عوامی نکتہ¿ نظر سے کون دیکھے اور کون سمجھے گا؟