دو ٹوک واضح مو¿قف

بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے حکومت پاکستان پر سے دباﺅ کی اطلاعات زیرگردش ہیں۔ یہ اطلاعات حقیقت ہیں یا فسانہ گواس حوالے سے تادم تحریر حتمی طور پر کوئی بات کرنامشکل ہے البتہ پچھلے دنوں وزیراعظم پاکستان عمران خان کا ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں یہ کہنا کہ پاکستان فلسطینیوں کے اطمینان تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گانیز وزارت خارجہ کی جانب سے ایک باضابطہ وضاحت میں یہ کہنا کہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے نہ توکوئی آپشن زیر بحث ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں پاکستان پر کسی بھی دوست ملک کی جانب سے کوئی دباﺅ ہے، واضح اور دو ٹوک موقف کی علامت ہے۔ لہٰذاان وضاحتوں کے بعد اسرائیل کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کئے جانے کی اطلاعات کو اگر منفی پروپیگنڈہ قراردیا جائے تو شایدبے جا نہیں ہوگا۔لیکن ہمارے ہاں چونکہ اس طرح کے شوشے چھوڑنا معمول بن چکا ہے اسلئے اس پر بظاہر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اس صورتحال کا دوسرا رخ پاکستان کانظریاتی تشخص اور اسے عالم اسلام میں حاصل مقام ہے جو اسے دیگر اسلامی ممالک سے قدرے ممتاز بناتاہے۔دراصل پاکستان کے اسی مخصوص پس منظرکی وجہ سے یہاں جب بھی اسرائیل کے حوالے سے کسی نرم گوشے کااظہار سامنے آتا ہے توپوری قوم میں ایک ہیجانی کیفیت پیداہوجاتی ہے۔اصل میں اہل پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے اس جذباتیت کاتعلق یہاں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے عقیدے اور ایک جسد واحد ہونے کے ناتے ان کے دلوں کا اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کےساتھ دھڑکنے سے ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آج سے سات دہائیاں قبل تک اسرائیل نامی کسی ملک کا کوئی وجود نہیں تھا اور فلسطین کا سارا علاقہ خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ اور اس وقت سے یہ پورا خطہ خلافت اسلامیہ کا حصہ چلا آ رہاتھا لیکن پہلی جنگ عظیم میں جرمنی اور اس کے اتحادی خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب اتحادی ممالک نے برطانیہ کی قیادت میں اس جنگ میں کامیابی حاصل کی تو دنیا کے دیگرخطوں کی طرح ان فاتح ممالک نے خلافت عثمانیہ کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے آپس میں بانٹ لیا تھابعد میں اقوام متحدہ کے ایک فیصلے کے تحت فلسطین کو تقسیم کر کے ا س کے ایک حصے کو اسرائیلی ریاست قرار دے کر اسے اس مقدس سرزمین میں ایک خنجر کے طور پر گھونپ دیا تھا ،اس کا دوسرا حصہ فلسطینیوں کے قبضے میں رہا جو ابھی تک ایک نیم خودمختار فلسطینی ریاست کے طورپر چلا آرہا ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ نے برطانیہ اور امریکہ کی شہ پر فلسطین کو تقسیم کر کے جس ا سرائیلی ریاست کی غیرمنصفانہ بنیاد رکھی تھی اسے مجموعی طور پر مسلمان ممالک نے قبول نہیں کیاتھابلکہ مسلمانوں نے اسے فلسطینیوں پر ظلم اور بیت المقدس کے خلاف سازش قرار دےکر مسترد کردیا تھا۔اسرائیل چونکہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وجود میں آیا تھا اس لئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح اور دوٹوک الفاظ میںاسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قراردیا تھابعد ازاں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ وہ دن اور آج کا دن پاکستان شروع دن سے اسرائیل کو ایک غاصب ملک قراردیتا رہا ہے جسے بڑی طاقتوں نے ایک منظم سازش کے تحت فلسطینیوں کودربدر کر کے ان کے سروں اور ان کی سرزمین پر زبردستی مسلط کیا ہے۔ اس ساری کشمکش میں اسرائیل اور پڑوس کے عرب ممالک کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں لیکن بدقسمتی سے ان جنگوں میں بڑی طاقتوں کی مداخلت اور سرپرستی سے چونکہ اسرائیل کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہااس لئے ان حالات میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیاجب عربوں سے کہا گیا کہ اگر آپ اسرائیل کی 1967 سے پہلے والی پوزیشن تسلیم کر لیں تو ہم اسرائیل کو شام،مصر اوراردن سے ہتھیائے گئے علاقوں سے واپس جانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اسی وعدے کی بنیادپر کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کاڈول ڈالا گیا جس کے نتیجے میں1979میں مصراور 1994 میں اردن سے اسرائیل کو تسلیم کر وایاگیاتاہم سعودی عرب، پاکستان، ایران اور دیگر مسلم ممالک اب تک اسرائیل کوتسلیم نہ کرنے کے اپنے سابقہ موقف پر قائم ہیں ‘ سوال یہ ہے کہ اگر ہم کشمیر کے معاملے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کو کشمیر سے دستبرداری پر محمول کرتے ہیںتو پھر فلسطین کے معاملہ میں ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی رائے عامہ کوآخر کیونکر نظرانداز کر سکتے ہیں۔ اسلئے تو وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ اگر ہم کسی بھی وجہ سے ا سرائیل کو موجودہ حیثیت میں تسلیم کریں گے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمیں کشمیر سے بھی دستبرداری کےلئے خود کوتیار رکھناہوگا کیونکہ اگر ہم مسئلہ فلسطین پر لچک اختیار کریں گے تو ہمارے لئے مسئلہ کشمیر پر کھڑے رہنے کا بھی کوئی اخلاقی اور قانونی جواز باقی نہیں رہے گا۔