ہندکوکش اور پامیر نامی پہاڑی سلسلہ پاکستان اور اَفغانستان کے درمیان ’قدرتی سرحد‘ جیسا بھی ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان قانونی راستوں کے علاوہ ایسی راہداریاں بھی ہیں جو دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرتی ہیں اور اِن راستوں پر غیرقانونی آمدورفت روکنے میں پاکستان بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ 24 مارچ 2017ءسے جاری ’پاک اَفغان سرحد‘ کی خاردار تاریں لگا کر بندش کا کام جاری ہے‘ جس کی تکمیل نہ ہونے کی بنیادی وجہ افغانستان کی جانب سے تحفظات اور مخالفت ہے بہرحال 45 کروڑ (450ملین) ڈالر کے اِس منصوبے میں اب تک (تین سال آٹھ ماہ) کے دوران 1600میں سے 800 میل دیوار مکمل ہو چکی ہے جس کی بلندی 4 میٹر (13فٹ) ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد چھبیس سو کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے‘ جسے ’ڈیورنڈ لائن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس سرحد کے 53 کلومیٹر حصے ’درّہ خیبر‘ کے اختتام پر طورخم نامی سرحدی علاقہ ہے جو افغان صوبے ننگرہار سے ملتا ہے اور یہ دنیا کی مصروف ترین عالمی سرحدوں میں سے ایک ہے۔ کورونا وبا کے سبب طورخم سرحد ’4 مارچ سے 29 اپریل تک‘ جزوی طور پر بند کی گئی تاہم اِسے جلد ہی بحال کر دیا گیا اور تب سے حسب معمول سرگرمیاں جاری ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی اور پاکستان سے بیدخل کئے جانے والوں کے لئے طورخم ہی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ یکم جنوری سے نومبر دوہزار بیس کے پہلے ہفتے تک اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ذیلی ادارے ’یواین ایچ سی آر‘ کی مالی مدد و تکنیکی سہولت کاری سے 940 افغان مہاجرخاندان رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس گئے ہیں‘ سفری اخراجات اور وطن واپسی کے بعد اپنی معیشت و معاشرت بحال کرنے کےلئے فی خاندان 250امریکی ڈالر دیئے جاتے ہیں۔ مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی کے حوالے سے اِن کوششوں‘ عالمی ادارے کی دلچسپی اور پاکستان کا کردار کا قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ یکم سے سات نومبر تک پاکستان سے 163 افغان خاندان رضاکارانہ جبکہ 10 افغان مہاجروں کو زبردستی بیدخل کیا گیا ہے لیکن اِسی عرصے کے دوران ایران سے 13ہزار820 افغان مہاجر خاندان رضاکارانہ جبکہ 9ہزار820 افغان جبراً بیدخل کئے گئے۔ نکتہ یہ ہے کہ اِیران کے مقابلے پاکستان سے افغان مہاجرین کی رضاکارانہ وطن واپسی اور مہاجرت کی دستاویزات نہ رکھنے والوں یا جرائم میں ملوث افغانوں کو جبراً بیدخل کرنے کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اگر رواں برس کے اعدادوشمار دیکھے جائیں جو اقوام متحدہ کی جانب سے اپنی امدادی سرگرمیوں سے متعلق ویب سائٹ (reliefweb.int) پر جاری کئے گئے ہیں تو مذکورہ دس ماہ ایک ہفتے کے عرصے دوران پاکستان سے مجموعی طور پر 5 ہزار 274 افغان مہاجر رضاکارانہ جبکہ 494 جبراً بیدخل کئے گئے اور ایران سے 4 لاکھ50ہزار 413 افغان مہاجر رضاکارانہ جبکہ 2 لاکھ 68 ہزار915 افغانوں کو جبراً افغانستان بھیجا گیا۔ 21 اگست سے اسپین بولدک (چمن بارڈر بلوچستان) پر آمدورفت ہفتے کے ساتوں دن جاری ہے جبکہ طورخم پر 25 اگست سے پیر اور منگل کے دن مہاجرین کی واپسی کےلئے مختص ہیں۔ 28 ستمبر (دوہزاربیس) سے وفاقی حکومت نے طورخم سرحد بھی ہفتے کے ساتوں دن پیدل آمدورفت کےلئے کھول دی ہے‘ جس کے بعد سے مہاجرین کی واپسی سے زیادہ اُن افغانوں کی آمد میں اِضافہ دیکھا گیا ہے جو پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات (قانونی اِجازت نامہ) رکھتے ہیں اور اِن میں سے اکثریت پاکستان علاج کی غرض سے آتی ہے۔ عمومی حالات میں پاک افغان طورخم سرحد کے راستے آمدورفت کے علاو¿ہ اَشیائے خوردونوش کی نقل و حمل قریب سارا سال ہی جاری رہتی ہے اور اِس تجارت کواگر قانونی و دستاویزی شکل دی جائے تو ہنرمند افرادی قوت میں مانگ میں اضافہ ممکن ہے‘ پاکستان کا مفاد اِسی میں ہے کہ ایران کی طرح اُن افغانوں کی رضاکارانہ وطن واپسی پر توجہ دے جن کے پاس اقوام متحدہ کی جانب سے مہاجرت اختیار کرنے کی دستاویزات موجود ہیں اور عالمی معاہدے کے تحت ایسے افراد کو زبردستی بیدخل نہیں کیا جاسکتا‘ تاہم افغانستان میں معاشی صورتحال بہتر ہونے سے رضاکارانہ واپسی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے جس کے مثبت اثرات ہماری معیشت پر بھی مرتب ہونگے۔