پہلے تو گاڑی کھڑی کرنے کی کہیں کوئی جگہ نہیں ملتی۔ پھر اگر ذرا دور کر کے بائیک بھی ہو لاک کر کے بے فکر نہیں ہوسکتے ۔گاڑی پر نظر رکھنا پڑتی ہے ۔ چور حضرات بائیک کے تالے بڑی آسانی سے توڑ مروڑ کراس پر سوار ہو کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔بلکہ فلیٹ والی بلڈنگ کے اندر نیچے ڈیوڑھی سے بھی بائیک اڑا لے جاتے ہیں۔اگر یہ نہ کریں تو پٹرول تو ضرور نکال لیتے ہیں ۔ کیونکہ بائیک سے پٹرول بہت آسانی کے ساتھ نکالاجا سکتا ہے ۔پھر موٹر سائیکل کا سائیڈ کور اور بیٹری تک لے جاتے ہیں ۔بہت پسند آجائیں تو بائیک کے ایل ای ڈی اشارے بھی چرا لیتے ہیں۔ پھر بائیک پر پیچھے دیکھنے والے آئینے بھی ان کی شراتوں سے بچ نہیں سکتے۔ ہمارے ساتھ تو اتنی وارداتیں ہوئی ہیں کہ اب تو بائیک کے ساتھ ہمارا شوق وہ نہیں رہا جو پہلے تھا ۔کیونکہ شوق کی چیزیں تویہ اڑالے جاتے ہیں۔ اس پر سو شکر کہ دو پہیے قدرت نے دیئے ہیں اور جہاں چاہے منہ اٹھائے چھوٹا سٹینڈ گرائے پہنچ جاتے ہیں ۔ بہت ہوا تو پہلے پہیے کا لاک لگانے کے بعد پچھلے پہیے کو رنگ لاک لگا دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی معلوم ہے کہ اٹھانے والے تین بندے پک اپ سے اترتے ہیں اور بائیک کو دونوںتالوں کے سمیت ڈنگا ڈولی کر کے سوزوگی گاڑی کے پچھلے حصے میں یا لوڈر میں ڈال کر جیسے بھینس کو ڈاٹسن میں چڑھاتے ہیں لے جاتے ہیں۔جن کے بائیک گم ہو جاتے ہیں ان کو بائیک واپس کبھی بھی نہیں ملتے۔ کیونکہ ایسے ایسے ماہر چور موجودہیں جو بائیک ہو یا کوئی گاڑی اس کے پرزے پرزے کر کے الگ الگ ٹوٹے الگ الگ بازاروں میں خواہ شہر کے باہر ہوں بیچ آتے ہیں۔پنجاب کی گاڑیاں چوری ہوکر اٹک پار ہمارے ہاں آتی ہیں ۔پھر یہاں کی گاڑیاں چوری چھپے اٹک پار وہاں پہنچ جاتی ہیں ۔ یہ دھندہ تو گذشتہ پچاس سال سے اپنی پوری آن بان کے ساتھ جاری ہے ۔پہلے زمانوںمیں اگر گاڑی چوری ہوجاتی تو باڑہ کے علاقہ غیرسے ملتی ۔ مگر وہ بھی خاصہ داروں اور پولیٹیکل کی مداخلت اور چھاپے مارنے کے بعد۔ لیکن گاڑی مل بھی جاتی تو کیا ملتی ۔ اس میں کیا بچا ہوتا تھا۔ سب چیزیں جو گاڑی کی رونق میں اضافہ کرتی ہیں وہ سب نکال لی ہوتی تھیں۔مگر وہ زمانہ گیا جب گاڑی کا فریم اور چیسس ہی سہی مل تو جاتاتھا ۔ اب تو گاڑی یہا ںسے چوری ہو تو شہر ہی کے اندر کسی گھرمیں اس کے ٹکڑ ے ٹکڑے کر کے اس کے سارے حصے بخرے علیحدہ علیحدہ کر کے بیچ باچ کر فارغ ہو جاتے ہیں۔ اچھی خاصی رقم ان کے ہاتھ لگ جاتی ہے ۔مگر کمال یہ ہے کہ بینکو ں کی مہربانی سے عوام الناس کو گاڑیاں قسطوں پر ریوڑھیوں کے مول دستیاب ہیں ۔ پھر گاڑی میں ٹریکر بھی لگا ہے ۔نوشہرہ سے کراس ہو تو مالک کو ایس ایم ایس آ جاتا ہے کہ آپ کی گاڑی فلاں حدود کو پار کرگئی ہے کیاکریں وہیں جام کردیں یا جانے دیں۔اس ڈر کے مارے چور وں نے گاڑیوں کی چوری کا یہ حل نکالا ہے کہ ساتھ والی گلی میں اپنے گھر لاکر اس کے پرزے پرزے کرکے اس کے پرزے متعلقہ بازاروں میں فروخت کر دیتے ہیں ۔میر ے والد جب سن 74میں باڑہ میں نائب تحصیلدار تھے تو اس وقت ہم بھی وہاں ان کے ساتھ تحصیل کی کچی دیواروں کے اندر سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھے ۔جب والدگھر سے باہرتحصیل کی قلعہ نما چار دیواری کے اوپن ایئر میں نکلتے تومیں بھی ساتھ ہوتا۔ کسی دن خاصہ دار فورس کی پوری بس تیار ہوتی تھی ۔ میرے والد کے ہاتھ میں بھی دو پستول ہوتے ۔پوچھتا نہ تھا کہ اتنا ذہن نہ تھا کہ ان کاموں میں ہاتھ ماروں پھر سرکاری کام تھے ہوگا کچھ نہ کچھ ۔ مگر کانوں میں آواز پڑ جاتی کہ آج چھاپہ ہے ۔ گھنٹے دو بعد واپس آتے تو کوئی بندہ جو اغوا ہوچکا ہوتا وہ نکال لاتے یا پھر کسی گاڑی کی پشاور سے اغوا کی اطلاع ہوتی تو برآمد کرتے ۔مگر گاڑی تو بس ڈھانچہ ہوتا ۔کام کی چیزیں تونکال لی گئی ہوتی تھیں۔اب تو گاڑیوں کے اغوا کو روکنے کےلئے بہت اچھے اقدامات ہیں ۔ مگر بائیک کی چوری خوب دھڑلے سے ہو رہی ہے ۔ میںنے نہیں سنا کہ کسی کا موٹر بائیک چوری ہوا اور مل گیا۔انصاف کی بات یہ ہے کہ بائیک بھی تواس شہر میں لاکھوں کی تعداد میں ہیں ۔ بھلا ہو ان کمپنیوں کا جو قسطوں پر غریب عوام کو بائیک دیتے ہیں ۔ پھر یہ بائیک شہر کا سکون غارت کرنے میں باقی گاڑیوں میں سب سے اول نمبر پر ہیں ۔