بیورو کریسی کا معمہ

بیورو کریسی کے بارے میں تازہ خبر یہ ہے کہ اس کا توڑ ڈھونڈ لیا گیا ہے ڈاکٹر عشرت حسین کی رپورٹ پر نئی کمیٹی بنا ئی گئی ہے جو اس رپورٹ کی سفا رشات کو عملی جا مہ پہنا نے کےلئے مزید سفارشات پیش کریگی ان سفارشات کی روشنی میں ایک اور کمیٹی بنے گی ‘بنیادی سفا رشات کا دائرہ تین باتوں کے گرد گھومتا ہے 70فیصد افسروں کو گریڈ 18سے آگے تر قی سے رو کا جائے‘ نئے آفیسروں کو سی ایس ایس ، کے ذریعے لانے کی جگہ مارکیٹ سے ما ہرین کی صورت میں کنسلٹنٹ بنا کر لا یا جائے اور تیسرا نکتہ یہ ہے کہ گریڈ 20اور گریڈ 21کے آفیسروں کو جبری ریٹائر منٹ پر بھیج کر نظام حکومت کو آفیسروں سے پا ک کیا جائے ،آفیسروں کے ساتھ حکو متوں کی کیوں نہیں بنتی ؟ یہ سو ملین ڈالر والا سوال ہے اور اس سوال کا جواب کبھی آساں نہیں رہا جو حکومت قانون کے مطا بق آگے بڑ ھنا نہیں چاہتی ، قانون کو پاﺅں تلے روند نا چاہتی ہے آفیسروں کی ٹیم آئین کا حوالہ دیتی ہے قانون کا نا م لیتی ہے تو یہ باتیں اوپر والوں کو بری لگتی ہیں پولٹیکل سائنس کے ماہرین نے لکھا ہے کہ ریا ست کے تین ستون ہیں پہلا ستون مقننہ یا ملکی پا رلیمنٹ ہے ، دوسرا ستون انتظا میہ یعنی بیو رو کریسی ہے اس کا تیسرا ستون عدلیہ اور صحافت کو ریا ست کا چوتھا ستون بھی کہا جا تا ہے عد لیہ اور صحا فت کا کام پارلیمنٹ اور بیو رو کریسی کے درمیان تو ازن قائم کر کے عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دلوا نا ہے آج کل لاہور ، اسلا م آباد اور پشاور کے اندر اقتدار کی راہ داریوں میں بیورو کریسی کو ملکی تر قی کا دشمن قرادیا جا رہا ہے بیو رو کریسی کا مو قف یہ ہے کہ قانون کے مطا بق کوئی کام رکا نہیں قانون کے بغیر کوئی کا م ہوا نہیں اور یہی اصل مسئلہ ہے بسا اوقات سول حکو متوں میں ایک ایک محکمے کےلئے چار چار وزیر لائے جاتے ہیں۔چونکہ ہر حکم دوسرے حکم کی ضد ہو تا ہے اس لئے عمل درآمد میں وقت لگتا ہے ‘مقتدر حلقوں سے دیر ینہ شنا ئی رکھنے والے ججوں اور صحا فیوں کا خیال ہے کہ مو جو دہ حالات میں کرپشن کی تکرار ، نیب کی دھمکی اور این آر او کے خو ف نے بیورو کریسی کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر رکھ دیئے ہیں قیا م پا کستان کے بعد با بائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے سول سروس کے آفیسر وں سے خطاب کر تے ہوئے تین جملوں میں رہنما اصول بیان کئے تھے بابائے قوم نے پہلی بات یہ کہی کہ حکومتیں آتی جا تی ہیں بیو رو کر یسی اپنی جگہ قائم رہتی ہے انہوں نے دوسری بات یہ کہی تھی کہ بیورو کریسی کسی حکو مت سے وفا داری پر مکلف نہیں ریا ست سے وفاداری پر مکلف ہے تیسری بات انہوں نے یہ کہی کہ سیا ستدانوں کی کوئی بات ما ننے سے پہلے قانون کی کتاب کو دیکھو اگر قانون میں گنجائش نہ ہو تو ہر گز نہ ما نو یہ باتیں کہنے والا خو د سیا ستدان اور قا نون دان تھا یہ سنہری باتیں آج کے سیا ستدانوں اور قانون دا نوں کو پسند نہیں اس لئے بابائے قوم کا فر مان لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے ایک دوست کو اس بات کی بڑی خو شی ہوئی کہ ٓافیسروں کی جگہ ما ہرین یعنی کنسلٹنٹ آگئے تو ملک دن دوگنی رات چو گنی تر قی کرے گا ہم نے ان کی خد مت میں ایک کنسلٹنٹ کا مشہور واقعہ عرض کیا ایک شخص کا کسی چراہ گاہ سے گذر ہوا تو اس نے چرواہے کے سامنے اپنی جیپ روک کر چرواہے سے کہا اگر میں تمہارے ریوڑ میں بیمار بھیڑوں کو الگ کروں تو مجھے کیا دوگے ؟ چرواہے نے کہا ایک بھیڑ ، تھوڑی دیر بعد اُس شخص نے کہا میں نے بیمار بھیڑوں کے گلے میں پٹا ڈال دیا ہے ان کو 10دنوں کےلئے ریوڑ سے الگ کر لو، چرواہے نے کہا ٹھیک ہے ایک بھیڑ اُٹھا ﺅ اس نے ایک جانور کو اٹھا کر جیپ میں ڈال دیا چرواہے نے پو چھا کیا تم کنسلٹنٹ ہو؟ اُس نے کہا تم نے کیسے پہچا نا ؟ چرواہے نے کہا جس جا نور کو تم نے جیپ میں ڈال دیا یہ بھیڑ نہیں یہ میرا کتا ہے اس لئے میں نے تم کو پہچا نا خدا کرے ہمارے ہاں ایسے کنسلٹنٹ نہ آجا ئیں۔