ہمارے مسئلے

بعض لوگ سمجھتے ہیں ہمارے ہاں مسائل نہیں ہیں۔ جو یہ سوچ رکھتے ہیں کاش ایسا ہی ہو ۔ شہر میں ایک مسئلہ تو نہیں ۔ہر مسئلے پر اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ شہر کے مسائل الگ ہیں اور ملک کے جدا ہیں۔ پشاور ہی کو لیں یہاں ایک مدت سے پارکنگ کا مسئلہ ہے ۔ اس مصروف ترین شہر میں نہ کوئی سڑک فارغ ہے نہ ہی کوئی سروس روڈ اس ستم سے خالی ہے ۔ شہر میںکہیں جانا چاہیں وہاں جیسے تیسے پہنچ تو جاتے ہیں ۔مگر وہاں پہنچ کر بھی کیا کریں گے ۔کیونکہ جتنی دیر میں گھر سے آتے ہیں اتنی دیر اور لگ جاتی ہے۔ کہیں بھی گاڑی کو پارک کرنے کی جگہ نہیں ملتی ۔ یہاں وہا ں گاڑی سمیت بھٹکتے ہوئے دیر ہوجاتی ہے ۔ہمارے ہاں آبادی زیادہ ہو رہی ۔ اگر نہیں تو ہر آدمی باہر سے پشاور ہی کا رخ کر تا ہے۔ظاہر ہے کہ پشاور میں سب کے مسائل کا حل ہے ۔سرکاری بڑے دفاتر یہاں ہیں سکول اور کالج یونیورسٹیاں اور ہر چیز کے بازار ہیں۔ جہاں فروخت کی جانے والی اشیاءکے انبار ہیں ۔اپنے شہروں میں گا¶ں میں لوگ زمینیں جائیدادیں بیچ باچ کر پشاور اور خاص طور پر اندرون ِ پشاور پراپرٹی خرید رہے ہیں ۔رہائش اختیار کرتے ہیں اورکاروبار کرتے ہیں۔ مگر شہر کے پھیل جانے کی رفتار بہت آہستہ ہے ۔تعمیرات تو ہو رہی ہےں ۔خوب ہو رہی ہیں ۔عمارات بھی ایک کے پیچھے دوسری کھڑی ہے ۔مگر یہ ہست کا پھیلا¶ دائیں بائیں نہیں ہے اوپر نیچے ہے ۔ اگر دو منزلہ عمارت ہے تو اس پر تیسری اور چوتھی منزل ڈالی جا رہی ہے۔جس کی وجہ سے حبس کا عالم ہے ۔پھر ایسے میں پریشانی کا زیادہ ہونا ہے ۔اگر شہر کے اندر جائیں تو پیدل جائیں ۔ رکشہ لیں۔ مگر گاڑی میں گئے تو اول گاڑی کہیں لگ نہ جائے۔ کسی کو نہ لگے مگر خود آپ کی گاڑی کو کوئی ہتھ گاڑی ریڑھا گاڑی گدھا گاڑی اور گھوڑا گاڑی ٹکر نہ مار دے ۔یوں چمچماتی نئی نویلی گاڑی پر اگر ایک خراش بھی آ گئی تو اس گاڑی کی ویلیو انتہائی ڈا¶ن ہو جاتی ہے ۔گلیوں کوچوں میں سٹینڈ بنے ہیں ۔جہاں گاڑی پارک کی جا سکتی ہے۔مگر وہ بھی تھوڑا کھلی جگہوں پر۔اگر سرکاری دفاتر میں جائیں تو گاڑی دور جاکر پارک کریں گے۔ وہاں سے پیدل اس دفترکی عمارت تک پہنچیں گے۔سمجھ نہیں آتا کہ یہ حبس اور تنگی کب دور ہوگی۔ کیونکہ ہر آدمی جسے دیکھو شہر کے اندر آنا چاہتا ہے۔دفاتراگر شہر کے باہر اٹھاکر لے جائے جائیں توکہیں بہتری کے آثار ہوں ۔ مگر یہ کام بھی آسان نہیں ہے۔کچھ دفتر تو شہر سے باہر بھی چلے گئے ۔ کیونکہ لوئر کورٹس کے پاس ہر دفتر نے اپنی پوزیشن سنبھالی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ضلع کچہری کے آس پاس روزانہ وہ رش ہوتا ہے کہ گاڑی پارک کرنے کامسئلہ یہاں بہت زیادہ ہے۔چوکیدار یا سیکورٹی گارڈ یا پولیس سپاہی آپ کودور سے اشارہ کریں گے کہ گاڑی کو قریب مت لا¶ دور لے جا¶۔ آپ تو آکر پشیمان ہو جائیں گے ۔ دل میں سوچیں کہ یہاں آنا بھی تو ضروری تھا مگر اب گاڑی کو کہاں لے جا¶ں۔ کیونکہ گاڑی کو دور کھڑے کرنے میں گاڑی کا تحفظ نہیں۔ اگرچہ کہ آج کل ہر جگہ کیمرے لگے ہیں ۔کیمرہ سب کچھ دیکھ رہاہوتا ہے ۔مگر کیمرہ تو وہی بتلائے گا جو اس نے دیکھا۔ یہی کہے گا کہ ایک ہیلمٹ پہنے ہوئے بندے نے گاڑی کا تالا توڑا ۔ اب اس نے چہرے پر چادر تان رکھی ہو تو اس کو کیسے پہچان پائیں گے۔ لہٰذا جب قانون حرکت میں آتا ہے تو وہاں چوری چکاری کرنے والے بھی حرکت میں آ جاتے ہیں۔ جہاں پولیس سمجھدار ہونے لگتی ہے وہاں چور بھی سپاہیوں کی چالوں سے واقف ہو جاتے ہیں۔جیسے نئی نئی دوائیاں اگر بنتی ہیں تو ساتھ ساتھ جراثیم بھی پہلے سے زیادہ طاقتور اور توانا ہو جاتے ہیںجن کو پرانی دوا مار ڈالنے سے قاصر ہوتی ہے۔ چوہوں کی مثال لیں ۔ زہر والی گولیاں کھا کر خوب مزے اور آرام سے پورے گھر اور گلی محلے میں ناچتے پھرتے ہیں۔سو گلی محلے میں اگر پارکنگ ہے تو ہر جگہ نہیں۔ جہاں سیر او رآ¶ٹنگ کے لئے جانا ہو ۔ چمکنی سے حیات آباد تک بھی ہر جگہ یہ مسئلہ سر ابھارتا ہے۔ایک کہتا ہے گاڑی یہاں مت کھڑی کرو ۔ صاحب نے منع کیا ہے ۔دوسرا کہتا ہے یہاں پارکنگ کی اجازت نہیں ہے ۔سو تین گلیاں چھوڑ کرجانا پڑتا ہے وہاں گاڑی جیسے تیسے پارک کرکے آنا ہوتا ہے ۔پھر کسی دفتر کہیں شاپنگ مال میں داخلہ ہوتا ہے ۔مگر واپس جا¶ تو کار اپنی جگہ پر موجود نہیں ہوتی۔ ہاں وہیں ہوتی ہے ۔مگر سڑک سے اوپر فٹ پاتھ پر کھڑی ہوتی ہے بلکہ ڈال دی گئی ہوتی ہے ۔اس کو پولیس کے سپاہی دو لوہے کے کنڈوں میں پھنسا کر اٹھا لے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے تم نے غلط جگہ پارکنگ کی ہے ۔مگر خود ان کو احساس نہیں ہوتا کہ فٹ پاتھ پر گاڑی کو اٹھاکر رکھ دینا ۔ راہگیروں کا راستہ بند کر دینابھی تو درست نہیں ہے ۔خیر یہ باتیں چھوڑیں آپ جرمانہ ادا کریں ۔تب گاڑی کو نیچے لایا جائے گا ۔ آپ سوچتے ہیں کہ یہ جرمانہ گاڑی غلط پارک کرنے پر ہوا ہے ۔مگر میں کہتا ہو ں کہ یہ جرمانہ جو آپ ادا کریں گے یہ اس سبب سے ہے کہ آپ نے پشاور شہر میں قدم کیوں رکھا۔