افغانستان میں قیام امن کا پہلا مرحلہ امریکہ طالبان مذاکرات (اُنتیس فروری) کے بعد سے بین الافغان مذاکراتی دور کا آغاز اِس عمل کا دوسرا مرحلہ قرار دیا جا سکتا ہے جو اصلاً اور حقیقتاً زیادہ مشکل ہے بالخصوص ایک ایسے ماحول میں جبکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد امریکہ کی افغان پالیسی کے بارے میں سوالات اور خدشات اُٹھائے جا رہے ہیں جن میں یہ اہم سوال بھی شامل ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابات میں واضح شکست کے بعد کیا افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے سے متعلق افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں میں امن مذاکرات آگے بڑھ سکیں گے یا نہیں اور کیا امریکہ افغانستان میں امن کی بحالی جیسی کوششوں میں شریک رہے گا؟ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ جنوری میں وائٹ ہاو¿س سے نکلنے سے پہلے اپنا جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اُس میں افغانستان بھی شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی و سفارتی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے تو دوسری طرف افغان امن مذاکرات سے متعلق بھی امریکی حکام پرعزم دکھائی دے رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں دو دسمبر کے روز افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کی طرف سے ایک اہم اعلان سامنے آیا‘ جس کے مطابق فریقین امن مذاکرات آگے بڑھانے کے لئے ابتدائی قسم کے ایک معاہدے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اس معاہدے کے تحت مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کا ایجنڈا تیار کرنے کے لئے مشترکہ ورکنگ کمیٹی قائم کی ہے‘ جس نے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے بھی اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ اس بیان کے مطابق دونوں فریق افغانستان میں دیرپا امن کے لئے اپنی حقیقی کوششوں کو جاری رکھنے کے لئے پُرعزم ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان طے پانے والے اس تین صفحات پر مشتمل معاہدے میں آئندہ کے مذاکرات‘ جس میں مستقبل کا سیاسی نقشہ اور جامع سیز فائر جیسے آپشن شامل ہیں، سے متعلق رولز اور طریقہ کار وضع کیا گیا جسے افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے سے متعلق ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا لیکن امریکہ اور افغان حکومت کی یہ خواہش تاحال پوری نہیں ہو سکی ہے کہ طالبان جنگ بندی (سیز فائر) کریں۔ ظاہر ہے کہ شراکت اقتدار کے بغیر کسی بھی معاہدے (نتیجے) تک پہنچنا ممکن نہیں ہوگا اور طالبان جو نائن الیون کے بعد سے مسلط کردہ جنگ میں جو قربانیاں دیتے آ رہے ہیں اُن سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ اپنے حق (محنت و قربانیوں) سے دستبردار ہو جائیں لہٰذا یہ مطالبہ کرنا ہی غلط ہے کہ طالبان جنگ بندی کریں بلکہ بین الافغانی مذاکراتی عمل کو تیز رفتار بنانے کی ضرورت ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات زیادہ پیچیدہ بھی نہیں بلکہ اِس کی شرائط اور حدود معلوم ہیں۔ امریکہ نے اب تک بین الافغان مذاکرات کے تمام فریقوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں تشدد میں نمایاں کمی لانے اور ممکنہ جنگ بندی کے لئے کوششوں جیسے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن یہ عزم عملی کوششوں اور طالبان کے بارے میں دیگر سیاسی قیادت کے غیرمحتاط روئیوں اور بیانات کے ساتھ اکٹھے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بلاشک و شبہ بین الافغان امن مذاکرات نئی اور نہایت ہی غیرمعمولی پیشرفت ہے‘ جس کی پاکستان کی جانب سے اگرچہ کھل کر حمایت سامنے نہیں آئی لیکن افغان امن کے کسی بھی فریق کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ افغان قیام امن کی کوششیں جس مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں یہ پاکستان کی تائید و حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بین الافغان مذاکرات کا اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) نے بھی خیر مقدم کیا ہے اور ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین کا ”ایجنڈے کی طرف بڑھنا مثبت قدم ہے اور دیرپا امن کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم ہے جو تمام افغان چاہتے ہیں۔“ افغان عوام کیا چاہتے ہیں ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں اگر افغانستان کی موجودہ اور ماضی کی سیاسی قیادت کو رتی بھر بھی احساس ہوتا تو آج نوبت اِس حالت تک نہ پہنچتی کہ چالیس سال سے افغانستان اور استحکام ایک دوسرے کی ضد بنے ہوئے ہیں۔ اگر برطانیہ کے الفاظ ادھار لئے جائیں‘ جس نے کہا ہے کہ ”افغانستان قیام امن کی راہ میں پرتشدد کاروائیاں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور افغانستان میں پائیدار استحکام کا واحد حل امن و سلامتی ہے۔“ جس سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن افغانستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے اِس سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔ افغان عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا گیا۔ انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں طالبان نے نہیں بلکہ عالمی طاقتوں نے جنگی جرائم کی صورت کی ہیں اور آج یہی طاقتیں طالبان پر دباو¿ ڈال رہی ہیں یا طالبان سے اپنی منشا کے مطابق عمل کرنے کی توقع کر رہی ہیں۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد اُسے اپنے حال پر چھوڑ کر جانے والوں کو اپنے سیاسی فائدے سے زیادہ افغانستان میں قیام امن اور اِس کے مستقبل کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ (حسب اندیشہ) کہیں بین الافغان مذاکرات جیسی اہم پیشرفت بھی رائیگاں ثابت نہ ہو۔