ایرانی پارلیمنٹ نے جوہری سرگرمیوں میں اضافے کاقانون منظور کرتے ہوئے ملک کے جوہری ادارے کو سالانہ 120کلوگرام یورینیم پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے جس سے یورینیم افزودہ کرنے کی شرح 20فیصد تک بڑھ جائے گی ۔اسی طرح مڈل ایسٹ آئی نامی ایک ویب سائٹ نے دعویٰ کیاہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر ممکنہ حملے کی صورت میں ایران نے شیخ محمد بن زید النہیان کو دیئے گئے ایک خفیہ پیغام متنبہ ہے جس سے مبصرین خلیج فارس میں ایران اور امریکہ کے درمیان پہلے سے موجود تناﺅ میںاضافے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔اس تازہ صورتحال نے اس پس منظر میں جنم لیا ہے جب ایران نے کہا ہے کہ اس کے خیال میں ملک کے معروف جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو اسرائیل اور ایک جلاوطن ایرانی گروہ نے مل کر ریموٹ کنٹرول ہتھیار کے ذریعے ہلاک کیا ہے۔اس حوالے سے ایران کے قومی سلامتی کے سربراہ علی شامخانی کا کہنا ہے کہ حملہ آور جائے وقوع پر موجود نہیں تھے اور انھوں نے حملے میں الیکٹرانک آلات استعمال کیے حالانکہ اس سے پہلے ایران کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ فخری زادہ کی گاڑی پر حملہ کئی بندوق بردار حملہ آوروں نے کیا تھا۔گزشتہ جمعہ قتل کیے جانے والے ایران کے سینئرترین ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کو ایران کے جوہری پروگرام کا سرخیل اور ایک قومی قیمتی اثاثہ سمجھاجاتا تھا۔فخری زادہ کا جنازہ گزشتہ سوموار کو وزارت دفاع میں قومی اعزاز کے ساتھ ادا کیا گیا ۔ جنازے کے مناظر براہ راست سرکاری ٹی وی پر نشر کیے گئے جبکہ جوہری سائنسدان کا تابوت قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا جسے فوجی اہلکاروں نے اٹھایا ہوا تھا۔ اس موقع پر دیگر سینئر سرکاری حکام کے علاوہ انٹیلی جنس کے وزیر محمود علوی، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی اور ملک کے جوہری امور کے موجودہ سربراہ علی اکبر صالحی بھی موجود تھے۔حیران کن امر یہ ہے کہ سی آئی اے کے سابق سربراہ جان او برینن نے محسن فخری زادہ کے قتل کو مجرمانہ اور غیر ذمہ دارانہ فعل قرار دے کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں ان کاکہنا ہے کہ محسن فخری زادہ کے قتل سے خطے میں نئے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔دوسری جانب قوم سے اپنے خطاب میں صدر حسن روحانی نے محسن فخری زادہ کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہاہے کہ فخری زادہ کا قتل ہمارے دشمنوں کی مایوسی اور ان کی نفرت کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی شہادت ہماری کامیابیوں کو سست نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی واقعے کے ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا دینے کی تاکید کرتے ہوئے محسن فخری زادہ کے کام کو آگے بڑھانے پر زوردیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب دونوں ہی مشرقِ وسطیٰ میں سیاست کی بدلتی لہر اور نو منتخب صدر جو بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے پر خطے کی سیاست پر ہونے والے اثرات کے بارے میں فکرمند ہیں۔جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ2015میں امریکی صدر باراک اوبامہ کے دور صدارت میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونا چاہتے ہیں جس سے ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ چند ہفتے قبل صدر ٹرمپ نے اپنے سینئرمشیروں سے پوچھا تھا کہ کیا ان کے پاس ایران کی مرکزی جوہری سائٹ پر فوجی حملے کا آپشن موجود ہے یا نہیں۔بظاہر وہ جاتے جاتے بھی ایران کے ساتھ معرکہ آرائی چاہ رہے تھے۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے عراق میں ایران کے القدس فورس کے سربراہ اور بیرون ملک مہمات کے نگران جنرل قاسم سلیمانی کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کے بارے میں فخر کا اظہار کیا تھاجس سے ایک موقع پر ایران اور امریکہ کے درمیان خلیج فارس میں براہ راست تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی لیکن بعد ازاں ایران نے دعویٰ کیاتھا کہ اس نے عراق میں ایک امریکی فوجی اڈے کونشانہ بنا کر جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لے لیا تھا جس کی آزاد ذرائع سے تاحال تصدیق نہیں ہوسکی ہے حالانکہ ایران نے ایک موقع پر اس مبینہ حملے کی کچھ ویڈیو کلپس بھی میڈیا کے ساتھ شیئر کی تھیں۔دوسری جانب محسن فخری زادہ کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ایران کی جانب سے اپنی عسکری اور انٹیلیجنس برتری کے دعوﺅں کے باوجود اس قدر سخت سیکورٹی رکھنے والے ایک ایٹمی سائنسدان کویوں دن دیہاڑے کیسے نشانہ بنایا گیاہے۔حرف آخر یہ کہ اب جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کا وائٹ ہاﺅس سے انخلاءکا کاﺅنٹ ڈاﺅن شروع ہو چکا ہے لہٰذ اتوقع کی جانی چاہئے کہ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن اپنے وعدوں اور انتخابی نعروں کی پاسداری کرتے ہوئے پچھلی چار دہائیوں سے دباﺅ اور اقتصادی پابندیوں کے شکار ایرانی عوام کوکچھ نہ کچھ ریلیف دینے کی انسانی ہمدردی پر مبنی پالیسیوں کو اپنائیں گے۔