پاکستان کرکٹ کے چاند کو گرہن لگا ہوا ہے۔ یہ گرہن ’کورونا وبا‘ ہے جس نے قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ¿ نیوزی لینڈ کو گہنا دیا ہے۔ ایک نکتہ¿ نظر یہ سامنے آیا ہے کہ اگر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو عام پروازوں کی بجائے خصوصی (چارٹرڈ) فلائٹس کے ذریعے ہوائی سفر کروایا جاتا تو اِس بات کا امکان کم ہوتا کہ پاکستان سے سفر کا آغاز کرنے والے صحت مند کھلاڑی نیوزی لینڈ پہنچنے پر وبا سے متاثر پائے جاتے اور اُنہیں کمروں تک محدود کرنے سے ہونے والی ذہنی کوفت و ہزیمت سے باآسانی بچایا جا سکتا تھا مگر یہ رائے دینے والے حالات اور صورت ِحال کے الگ الگ پہلوو¿ں پر غور نہیں کرتے کہ کورونا وبا کے اجتماعی منفی اثرات جھیلنے والے ایک ترقی پذیر ملک کےلئے اپنے وسائل سے ایسا مہنگا بندوبست کرنا ممکن بھی تھا؟ چند ماہ پہلے برطانیہ کے دورے کےلئے خصوصی طور پر حاصل کردہ (چارٹرڈ) طیارے استعمال کئے گئے‘ جن کی وجہ سے قومی ٹیم پر مبنی دستہ محفوظ رہا لیکن یہاں یہ واضح نہیں ہے کہ پی سی بی اور انگلش کرکٹ بورڈ کے مابین یہ دورہ کن شرائط پر طے پایا تھا۔ ہمیں اس کی ہلکی سی جھلک برطانیہ کے پاکستان دورے کے اعلان کی شکل میں ملتی ہے مگر کیا کیوی کرکٹ بورڈ بھی پاکستان کو کوئی ایسی جوابی رعایت دینے پر آمادہ تھا؟ وسیع تر تناظر میں یہ بات بعید از گمان ہے۔ کیوی کرکٹ بورڈ بذاتِ خود اتنا بڑا معاشی ادارہ نہیں کہ اس کا مقابلہ انگلش کرکٹ بورڈ اور اس کی طے کردہ ’رعایات‘ سے کیا جا سکے۔ فی الوقت کیوی کرکٹ بورڈ کو محض اپنی نئی براڈکاسٹ ڈیل کا پیٹ بھرنا ہے جو کورونا کے تحت پچھلی ڈیل ختم ہونے پر سامنے آئی ہے جبکہ یہ واضح ہے کہ کیوی کرکٹ بورڈ اس دورے سے بہت کچھ کمانے جا رہا ہے تو ان حالات میں ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا کیوی کرکٹ بورڈ کو دورہ ختم کرنے کی دھمکی دینے جیسا اقدام اٹھانا چاہئے تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مشکل ترین وقت میں کرکٹ بورڈز کی باہمی ڈیلز کا بوجھ صرف ٹورنگ سکواڈ اٹھا رہے ہیں۔ یہ پلئیرز اور بیک روم سٹاف خود کو رضاکارانہ طور پہ ہفتوں تک اپنے کمروں میں محصور کر کے یہ ممکن بنا رہے ہیں کہ کرکٹ کی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ ایسے میں کسی ٹورنگ پارٹی کے لئے ایسی انتہائی زبان استعمال کرنا سفارتی روایات کے بھی منافی ہے۔ یہ بات بہرحال قابلِ ستائش ہے کہ کیوی کرکٹ بورڈ کے کسی عہدیدار نے اس بارے میں زبان نہیں کھولی۔ اب یہ بات بھی غور طلب ہے کہ وسیم خان کی وساطت سے ملنے والا سخت پیغام ٹیم کے کسی واٹس ایپ گروپ پر بھیجا گیا تو اُسے رازداری میں رکھا جانا چاہئے تھا مگر یہاں یہ ہوا کہ پیغام گروپ میں موصول ہونے کے کچھ ہی گھنٹے بعد چنیدہ چینلز کے ٹکرز میں جگمگا رہا تھا۔ ستم تو یہ ہوا کہ کورونا مثبت کھلاڑیوں کے نام بھی کیوی کرکٹ بورڈ کی جانب سے ظاہر کئے جانے سے پہلے ہی ’مخبروں‘ نے سنسنی اور ریٹنگ کا بازار گرم کر ڈالا۔ جب اتنے زیادہ ’ہمدرد‘ اپنی ہی صفوں میں موجود ہوں تو پی سی بی کو ایسے حساس سفارتی معاملات میں کمیونیکیشن کرتے ہوئے زیادہ بہتر اور محفوظ طریقے اپنانے چاہئے تھے۔ بہرحال کھیلوں کا مقصد ممالک اور شائقین کو جوڑنا ہوتا ہے۔ مختلف قومیتوں اور متنوع سوچوں کو کسی مشترکہ مقصد پر اکٹھا کرنا ہے اور سیاسی حریف ممالک کے درمیان ایسے دورے ہمیشہ ایک سفارتی پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ سو اگر کیوی وزیرِ صحت اپنے ملک کی کورونا صورتحال کے بارے اتنے ہی فکر مند تھے تو انہیں کم از کم اپنے بورڈ کو یہی مشورہ دینا چاہئے تھا کہ کھلاڑیوں کو کسی دور دراز مضافاتی علاقے کے الگ تھلک ہوٹل میں ٹھہرایا جائے نہ کہ کسی ایسے ہوٹل میں کہ جہاں اُن کا عام لوگوں سے میل جول ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو کورونا کب ہوا‘ کہاں سے ہوا اور کیسے ہوا یہ ساری بے کار و بے سمت بحث لاحاصل ہے۔ ایک ایسی بیماری جو عالمی وبا کی شکل اختیار کر چکی ہے اور دنیا کا کوئی ملک جس سے محفوظ نہیں تو اُس سے سفر کرنے والی پاکستانی ٹیم بھلا کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔ جب ایسی وبائی صورتحال میں دو کرکٹ بورڈز صرف باہمی معاہدوں کی پاسداری کا خیال کریں گے اور وبا کے تدارک کےلئے ٹھوس اور ’مہنگے‘ اقدامات سے جان چھڑائیں گے تو کورونا کہیں نہ کہیں سے ہو ہی جائے گا مگر جس طرح سے کھلاڑیوں کو رگیدا گیا ہے اور تنِ تنہا موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے‘ وہ کسی بھی صورت قابلِ تعریف و توصیف نہیں۔ اگر جہاز میں ویڈیو بناتے ہوئے کسی کرکٹر کا ماسک ناک سے نیچے تھا تو اس میں کوئی ایسی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ پاکستان کے عمومی مجموعی قومی رجحانات کی عکاسی کرتا ہے۔نیوزی لینڈ (کیوی کرکٹ بورڈ) ایسی پوزیشن میں نہیں کہ وہ یک طرفہ طورپر پاکستانی ٹیم کے دورے کو منسوخ کرنے کا سوچ بھی سکے لیکن دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز کو اپنے حفاظتی اقدامات پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کھیل اپنی جگہ لیکن احساس بڑی چیز ہے اور پاکستان کے کرکٹ کھلاڑیوں کو ’کورونا وبا‘ سے احتیاط نہ کرنے کے لئے تن تنہا موردِ الزام ٹھہرانا بھی جائز نہیں جس سے اُن کے حوصلے اور دلچسپی کم ہونے کے ساتھ شائقین (پرستاروں) کے جذبات بھی یقینا مجروح ہوئے ہیں۔