وفاقی کا بینہ نے بچوں اور بچیوں سمیت خواتین کے خلا ف جنسی جرائم کے مجرموں کو نا مر د بنا کر عبرت نا ک سزا دینے کے قانون کی منظوری دی ہے ا ب یہ قا نون یا تو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد روبہ عمل آئے گا یا صدارتی آرڈیننس کی صورت میں اس کو نا فذ کیا جائے گا جرم بہت گھناﺅنا ہے اس جرم پر قابو پا نے کےلئے سزائے موت کے قانون کا مطا لبہ کیا گیا تھا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ہجوم کے سامنے کھلے عام پھانسی دینے کا مطا لبہ ہو رہا تھا قصور کی معصوم بچی زینب کے قاتل عمران کےلئے کھلے عام پھا نسی کا مطا لبہ زور پکڑ گیا تو یورپ اور امریکہ والوں نے اس کی شدید مخا لفت کی پا کستا نی قانون دانوں کا ایک گروہ یہ نکتہ لا یا کہ ہمارے قانون میں کھلے عام پھا نسی کی گنجا ئش نہیں عمران کو سزائے مو ت ملی مگر کسی کےلئے عبرت کا سا مان نہیں ہوا بلکہ جرائم میں سال بہ سال اضا فہ ہوتارہا قصور سے مری ، مری سے ہزارہ ، ہزارہ سے ملاکنڈ اور ملا کنڈسے ہشتنگر گاﺅں گاﺅں اور شہر شہر یہ گھناﺅنے جرائم ہو تے رہے یہاں تک کہ موٹر وے پر بھی ایسا واقعہ ہوا اعداد وشمار کے مطابق قصور والے واقعے کے بعد اس نو عیت کے ڈیڑھ سو حا دثات اخبارات میں رپورٹ ہوئے نہ جا نے کتنے گھناﺅنے جرائم کو پو لیس اور اخبارات سے خفیہ رکھا گیا ہو گا حکومت کہتی ہے کہ مجرموں کو نا مرد کرنا عبرت نا ک سزا ہے لیکن ہمارے دوست پر وفیسر شمس النظر فاطمی کہتے ہیں کہ عبرت سزا کا تو مطلب ہے کہ ا سکے انجام سے سب باخبر ہوں۔ مذکورہ بالا سزا میں یہ ممکن نہیںاور پھر کیا گارنٹی ہے کہ ایسے افراد دوبارہ ایسے جرائم کا ارتکاب نہیں کریںگے۔ ان کا مو قف یہ ہے کہ 4سال کی بچی یا 6سال کے بچے کو جنسی ہو س کا نشا نہ بنا نے کے دوران قتل کر کے کھیتوں میں پھینکنا عام قتل کے جرم سے 10گنا بڑا جرم ہے اگر قانون میں دفعہ 302کے تحت سزائے موت ہو سکتی ہے تو جنسی جرائم کے ساتھ قتل کے مجرموں کو کھلے عام پھا نسی پر لٹکا نا عین انصاف کا تقا ضا ہے اس پر کسی مہذب معا شرے کے با شعور شہر یوں کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ اگر دو ہزار کے مجمعے نے مجرم کو تختہ دار پر لٹکتے دیکھا تو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے 50لاکھ لو گ اس کی لا ش کو لٹکتے ہوئے دیکھیں گے یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائر ل ہو ئی تو کروڑوں تک عبرت کا پیغام جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جو صورتحال ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ سزاﺅں میں سختی ہو تاکہ قانون کی پاسداری کرنے پر ان لوگوں کوبھی مجبور کیاجائے جو قانون کی بالادستی اور معاشرتی پابندیوں کو قبول نہیں کرتے اگر سزائیں اسی طرح درپردہ دی جاتی رہی تو ان کے اثرات معاشرے پر مرتب ہونے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ قتل کی سزا پھانسی ہے تاہم اب بھی روزانہ کتنے قتل ہوتے ہیں یہ سب ہی جانتے ہیں۔