ہم نے سردار جان کالونی کی طرف موڑ کاٹ لی۔ اندازہ تھا کہ چارسدہ اڈے والی روڈ پر رش ہوگا۔ سو ہم نے شاداں ہو کریہاں نہر کنارے جانے کی سوچی ۔ پھر یہاں سے فقیر آباد اور پھر پل پر سے فلائی کر کے نیچے جی ٹی روڈ اترنا تھا۔ کیونکہ ہشت نگری کے پھاٹک پر گذرنا بھی محال ہے ۔وہاں بھی بھیڑ بھاڑ ایسی ہے کہ توبہ توبہ ۔پھاٹک پر پٹری بھی کون سی نرم و ملائم ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کا یوں شکار ہے کہ جیسے شہرمیں ہزاروں سپیڈ بریکروں کے علاوہ ریلوے نے شہریوں کو دو ایک بریکر او رعطا کر دیئے۔ تاکہ گاڑیاں ٹوٹیں۔ سردار کالونی کی طرف جوں ٹرن کیا تو نہر کے چوک پر رش نظر آیا۔ سوچا اب اتنا رش بھی نہ ہو تو کیا مزا۔ یہ تو شہر کی نشانیوں میں سے ایک ہے ۔پھر یہ شہر بھی تو عام شہر نہیں ۔مگر وہاں وہ رش کہ پندرہ منٹ میں اشرفیہ کالونی پہنچے ۔ حالانکہ ہم نے اپنی چالاکی کی۔ سوچا یہ راستہ روزانہ کی طرح کھلا ڈلا رواں دواں ہوگا۔ مگر جو سوچا نہ ہوا۔ ہم بری طرح پھنس چکے تھے۔ آگے تو چھوڑ واپسی کا بھی کوئی راستہ نہ تھا۔جب سارا ٹریفک برف کی سل طرح جم گیا تو ساتھ کھڑے رکشہ ڈرائیور سے پوچھا خیر تو ہے۔کیاکوئی بڑی شخصیت قسمت سے یہاں سے گذرنے والی ہے ۔مگر خود اسے بھی کچھ معلوم نہ تھا۔ میں نے اس لئے پوچھا تھا کہ ڈرائیور حضرات سڑکوں کے تیراک ہوتے ہیں۔ مگر جان کر دکھ ہوا کہ اس کو بھی کچھ پتا نہ تھا۔یا تو شاید نیا نیا رکشہ لیا ہوگا۔ابھی وہ اس دنیا میں نو وارد ہے ۔کیونکہ وہ چہرے مہرے سے بھی جوان بلکہ نوجوان لگ رہاتھا۔ ہماری طرح خالی دماغ تھا ۔ حالانکہ ہم کو دعویٰ ہے کہ شہر کی سڑکوں کے بارے میں ہمیں خوب معلومات ہیں۔ سو ایک بوڑھے گھاگ رکشہ ڈرائیور سے پوچھا خیر تو ہے ۔سوچا چلو اس بہانے کچھ نہ کچھ سیاسی قسم کی واقفیت حاصل ہوجائے گی۔ پتا پڑ ے گا آخر یہ بندش کاہے کی ہے ۔اس نے کہا چارسدہ روڈ بند ہے ۔ اس لئے ساری ٹریفک اسی راستے پر ڈال دی گئی ہے ۔پوچھا کس لئے بندہے ۔ کیا وہاں کوئی تعمیر ہو رہی ہے ۔مگر وہ آگے او رکچھ نہ بتلا سکا۔ حضرات کیا بتلائیں بہت پشیمانی ہوئی کہ اس راستے سے کیوں آئے۔ بھلے چنگے گول چوک اوردلہ زاک روڈ کو چھوڑ کر زریاب کالونی کے راستے کو ترک کر کے ہم اس راستے پر جو آئے تو کچھ سوچ کر آئے۔ مگر ہماری پلاننگ ناکام ہوگی اور تقدیر ہم پر ہنسے گی ہمیں معلوم تھا۔ سو اب اس سمندر میں سے گذرنا ہے ۔اس بحرِ ظلم کے پانیوں میں گھوڑا ڈال دیا ۔ پھر سرکاری کان پر اگر جوں نہ سرکے تو نہ سرکے۔مگر آج توہم اسی دھیمی رفتار کے ساتھ رواں رہے ۔ بڑا شوق ہے تم کو کھلے کھلے راستو ںسے جانے کا ۔ بہت اچھی سوچ ہے تمھاری کہ راستہ صاف ہو بھلے لمبا کیوں نہ ہو ۔اب میں اپنے آپ کو کوسنے دے رہا تھا۔اب بھگتو بھئی اس لمبے راستے کی بھگتان کرو اور کڑھو جلو ۔ وہ شعر یاد آنے لگا جس کو میں ایک لفظ لگا کر اپنی پسند کے مطابق اس راستے کی طرح موڑ لیا ۔” کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ ۔ رستے کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے“ ۔ سوچا چلو آگے جا کر راستہ کھل جائے گا صاف و شفاف ہو جائے گا۔ اشرفیہ روڈ پر اپنی ڈرائیوری کے فن کا مظاہرہ کر کے رفتارتیز کر دیں گے۔ مگر ہمارا خواب بس خواب رہا شرمندہ ¿تعبیر نہ ہوسکا ۔ مولوی جی ہسپتال تک یہ سمجھو کہ پہیوں پر نہیں گئے پیدل گئے ہو ںجیسے ۔آہستہ رو مگر جاتے چلے گئے ۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تودل پر ہول آنے لگے۔ پل پر سے نیچے جی ٹی روڈ بھی بلاک تھا ۔سب کچھ صاف نظر آ رہاتھا۔ ہاں کچھ علامات ایسی دیکھیں جن سے اس رش کی وجہ سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ایک ٹھنڈی آہ بھری پھر بمشکل لاہوری دروازے کی طرف آخر مڑ ہی گئے ۔وہاں یہ ہجومِ بے کراں نہیں تھا۔ مگر جب واپس آئے تو سوچا اب تو بھیڑ کا یہ بے باک عالمِ خود رو بہ اختتام ہو چکا ہوگا۔ سو جی ٹی روڈ براستہ سپلائی روڈ دلہ زاک روڈ پہنچنے کے لئے کمر کس لی۔ کیونکہ جس راستے سے آئے اس طرف سے رش کے کارن واپس جانے کا تو سوال ہی پیدانہیں ہوناتھا ۔اس لئے جی ٹی روڈ پر تو پہنچ گئے او رگلبہار کے پاس سپلائی نہر کی جانب مڑتے مڑتے رک گئے ۔بس رش ہی رش تھا ۔ پھر ایک رکشہ والا سے پوچھا کہ یار یہ ہو کیا رہاہے ۔اس نے کہا آپ نے جانا کہا ںہے ۔میں نے کہا سٹی ریلوے سٹیشن والی سڑک پر جانا ہے ۔اس نے بتلایا آگے راستہ بندش کا شکار ہے ۔وہ اوپر والا راستہ کھلا ہے ۔میں نے کہا کون سا راستہ اس نے کہا فقیر آباد کے پل والا راستہ اختیار کریں۔اوہ میرے خدا پھر ایک اور غلطی ۔کاش جہاں سے آئے وہیں لوٹ جاتے۔ مگرہمیں کیا پتا۔ رکشے والانہ بتلا تا تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا۔مگر اس ہدایت اور نصیحت کے باوجود ہمیں آگے جانا تھا۔ کیونکہ اس ہڑا ہوڑی میں واپسی اتنی ہی زیادہ مشکل تھی جتنا کہ آگے جانا فائدہ مند تھا ۔ صاحبان اس صورتِ حال میں ہفتہ کا کوئی دن فارغ نہیں ہے ۔جمعہ کو الگ رش اتوار کو جدا ہجوم ۔ ہماری چھٹی ہوگی بلکہ چھٹیاں ہی چھٹیاں ہوں مگر رش کو قرار نہیں ۔