خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کے پھیلنے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور ہر دن ہونے والی ہلاکتیں ایک درجن سے زیادہ جبکہ مصدقہ و معلوم متاثرین کی تعداد میں یومیہ سینکڑوں کے تناسب سے اِضافہ ہو رہا ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں حکومت نے عوام کو عالمی وبا اور حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا بلکہ طبی ماہرین کے مشوروں سے نہ صرف کورونا وبا کے خلاف عوامی شعور میں اضافے کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں بلکہ سماجی فاصلوںکو ممکن بنانے کے لئے حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد بھی کروایا جا رہا ہے ۔ اِس سلسلے میں وفاقی کابینہ کا کورونا وبا سے بچاو¿ کی ادویات کی خریداری کے لئے ’پندرہ ملین ڈالر‘ جیسی خطیر رقم منظور کرنا بھی اپنی جگہ اہم ہے جس سے بیرون ملک ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں تخلیق کردہ ادویات خریدی جائیں گی لیکن توجہ دی جائے تو بہت سارے ایسے حل بھی موجود ہیں جو مقامی ہیں اور یکساں کارآمد ہیں جیسا کہ رواں ہفتے پشاور کے ’لیڈی ریڈنگ ہسپتال ‘ نے صوبے میں اینٹی جن ڈیٹیکشن ریپڈ ٹیسٹ (اے جی آر ڈی ٹی) کا آغاز کیا ہے۔ اِس طریقے سے کسی شخص میں موجود کورونا وائرس کی تصدیق تیس منٹ میں ہو سکتی ہے جبکہ اِس سے قبل کم سے کم بارہ سے چوبیس گھنٹے درکار ہوتے تھے۔ ابتدا¿ میں دس مریضوں کا مفت ٹیسٹ کامیابی سے کیا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت نے انسانی ہمدردی کے تحت کورونا سے متاثرہ افغان باشندوں کے لئے مفت تشخیص و علاج کی فراہمی ممکن بنائی ہے جو اپنی جگہ خوش آئند اور انسانی ہمدردی و اسلامی بھائی چارے کی عمدہ مثال ہے۔ پاکستان نے دنیا کو سبق دیا ہے ہر انسان کی زندگی اہم ہے اور ازروئے قرآن ”کسی ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسانیت کی زندگی بچانے جیسا وسیع المعانی (بامقصد) عمل ہے۔“کورونا تشخیص کے نئے نظام (اے جی آر ڈی ٹی) کے ذریعے کسی بھی مشتبہ مریض کے متاثر ہونے یا نہ ہونے کو معلوم کیا جا سکتا ہے اور یہ بات اِس لئے بھی اہم ہے کہ کورونا کی فوری تشخیص کی صورت ملنے والا ہر منٹ قیمتی ہوتا ہے اور فوری تشخیص سے طبی عملے کی زندگیوںکو بچایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں کورونا وبا سے متاثرہ مریض کی طبی حالت کا تعین بھی ضروری ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف ہسپتالوں میں زیرعلاج کورونا وبا کے مریضوں میں پانچ فیصد مریض افغان شہری ہیں جن کا علاج جاری ہے یا جو مفت تشخیص و علاج سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں ایسے اعدادوشمار اکٹھا نہیں کئے جاتے کہ مریض کی شہریت کیا اور اِسی وجہ سے افغانوں کی تفصیلات بھی موجود نہیں ہیں تاہم اندازہ ہے کہ پانچ فیصد مریض افغانستان سے آئے یا پاکستان میں مقیم افغان ہیں کیونکہ افغانستان میں صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ قریب 2 سال قبل خیبرپختونخوا حکومت نے مقامی ہسپتالوں میں افغان مریضوں کے علاج پر پابندی عائد کردی تھی اور کہا تھا کہ اس مقصد کے لئے الگ سے مالی وسائل مختص نہیں ہیں۔ مذکورہ ہدایات کے بعد ہسپتالوں نے نئی حکمت عملی وضع کی جس کے تحت مریضوں سے قومی شناختی کارڈ طلب کئے جانے لگے تاکہ اِس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغانوں کو سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم نہ ہو سکیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ صوبائی حکومت کو تقریبا ًدس برس سے افغان مہاجرین کی صحت اور علاج معالجے جیسی دیکھ بھال کے لئے بین الاقوامی ڈونرز خصوصاً اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے (یو این ایچ سی آر) سے کوئی مالی امداد نہیں ملی ہے جس کی وجہ سے انہیں دو سال قبل علاج پر پابندی عائد کرنی پڑی تھی تاہم کورونا وبا کے ظاہر ہونے کے بعد سے ہی ہسپتالوں میں افغان مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے اور مریضوں سے اُن کی شہریت کے بارے سوال نہیں پوچھا جا رہا کیونکہ کورونا صرف عالمی وبا ہی نہیں بلکہ انسانی مسئلہ بھی ہے۔ مشکل کی اِس گھڑی میں خیبرپختونخوا حکومت نے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا جسے عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ میں لاتے ہوئے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کیا جانا چاہئے۔