ابھی تو دسمبر بھی پورا نہیں گز را۔پھر اس کے بعد سردی کاایک اور نشتر جنوری کا مہینہ بھی رہتا ہے مگران دنوں سرِ شام مچھلی فروش اپنی دکانوں میںآگ کا بڑا الا ¶ روشن کرلیتے ہیں ۔ گلی گلی شہر شہر مچھلیاں جیسے خود ہی اچھلتی کودتی اس لال انگار کڑاہے میں جلتے ہوئے گھی کو جیسے پانی سمجھ کراس میں خود آ گرتی ہیں ۔ ہمیںتو شعریاد نہ آئے ہمارا بھی گزارانہیں۔ مگرہمارے ساتھ گزارا کریں وہ قاری جن کو گوارا نہیں ۔مگر کیا کریں اگر شعر آ جائے تو اس کو روکنا بھی تو امکان میں شامل نہیں۔ یہ تو ایک خود رو بہا¶ ہے ۔ خواہ پانی کا ہو کہ جس میں مچھلیاں تیرتی ہوں یا خیالات کی لہر ہو جس میں تر بہ تر شعر ابھر ابھر کر اپنے ٹھکانوں کا پتادے رہے ہوں۔ وہ شعر یہ ہے ” مچھلیاں جال سمجھ کر جو آگئیں باہر ۔کھل گئے کس کے یہ دریا کے کنارے گیسو“ ۔ گیسو تو کسی کے نہیں کھلے ۔ہاں سردی نے بھرپور طریق سے اپنے خیمے کھول دیئے ہیں۔ویسے مچھلی جیسی غذا کوئی نہ کھائے ایسے لوگ تو کہیں نہیںدیکھے ۔اگر ہوں تو ہو سکتے ہیں ۔کیونکہ ہر لحاظ سے مچھلی کی خوراک گویابیمار کے لئے دوائی کی خوراک ہے ۔پشاور کے گردو نواح اور چار اطراف ان دنوں خاص طور پر مچھلی اگر کھائی جارہی ہے تو فراوانی سے نوش فرماتے ہیں اور پھر چکن کی مہنگائی سے تو فی کلو مچھلی ارزاں ہے۔دکان پر جا¶ تو بینر پر 250روپے فی کلو کا اشتہار لگا ہے مگر پوچھو تو ساڑھے تین سو، چارسو، پانچ سو تک کم قیمت والی مچھلی ملتی ہے ۔میں نے دکان سے باہرنکل کر دکان کے ماتھے پر لگے پینافلیکس کو دیکھا تو پوچھا یہ مچھلی کہاںہے جو اڑھائی سو میں ہے ۔اس نے گھبرا کر کہا جی جی میں وہی آپ کو دے رہاہوں۔ جیسے ہم فوڈ کے محکمے سے ہوں یا وزیر ٹائپ کے مجسٹریٹ ہوں۔مچھلی میں درجنوں ذائقے اور دسیوں عام قسمیں ہیں۔ مگر مچھلی تومچھلی ہے ۔پشتو میں مثل ہے کہ گوشت گوشت ہوتا ہے ۔ہانڈی جل بھی جائے تو مزا دیتا ہے ۔ویسے چلتے چلتے ذکر مرغی کا بھی ہو جائے ۔دوسو تیس فی کلو تو مل رہی ہے ۔ وہ بھی زندہ چکن ۔لیکن اگر ذبح کر کے اس کا گوشت ترازو میں ڈال کر دیکھیں تو فی کلو تو بہت مہنگی پڑتی ہے ۔ چونکہ مچھلی کی تاثیر گرم ہے ۔اس لئے اس کو سردیوں میں زیادہ کھاتے ہیں ۔پھر خون کو بھی پتلا کرتی ہے۔انگریز تو سمجھ دار قوم ہے۔ انھوں نے ہمارے ہاں رہ کر کہاتھا کہ مچھلی کھانا ہے تو موسم کو سامنے رکھ کر ان انگریزی مہینوں میں کھا¶ جن میں انگریزی کا الفا بیٹ” آر“ آتا ہے ۔یہ سپیلنگ نہ ہو تو احتیاط کریں مگر ہم کورونا میں جہاں احتیاط کا بولا جاتا ہے اسے ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ستمبر، اکتوبر ، نومبر، دسمبر، جنوری ، فروری ، مارچ اور اپریل ہی تک مچھلی کو کھانا ہماری کتاب میں نہیں ۔ہمارے ہاں تو مئی ، جون، جولائی اور اگست میں بھی دھڑلے سے کھاتے ہیں ۔وہ انگریز ہیں جو آگ کو بھی پانی کر کے پی جاتے ہیں ۔مگر ہمارے بھائی بند تواتنے شہ زور ہیں کہ الٹا پانی کو آگ بنا کرپی جاتے ہیں بلکہ برڈ فلو آیا تو چکن کو آگ پر اتنا بھونا کہ اس میں ساری بیماری کو نکال دیا۔ کورونا کے گہرے وار تیز ہو رہے ہیں۔ایسے میں مرغی کو ارزاں ہونا چاہئے کیونکہ پچھلے لاک ڈا¶ن میں مرغی اونے پونے فروخت ہو رہی تھی ۔ اتنی کہ ہم نے بھی پانچ مرغیاں سالم لے کر فریج میں سٹور کر لیں کہ کل اگر لاک ڈا¶ن ٹوٹے تو ہمیں کچھ دنوں کا ریلیف ملے ۔مگر یہ آرام عارضی ثابت ہوا۔ مرغی اپنے کمزور پروں کے باوجود اونچی اڑانوں میں ہے ۔ان کو تو جس چیز سے منع کرو اسی کو کھائیں گے ۔ کورونا ہو یا کوئی اور مرض۔ اپنی حرکتوں سے پیچھے ہٹنا تو ہمارے ذائقہ میں شامل نہیں ہی نہیں ۔ہماری بڑی جیدار قوم ہے۔ اگر کسی نے ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے چاول نہیں کھانا تو کھائے گا۔ اگر کہو کہ آپ کو بی پی ہے خدارا نوش نہ فرمائیں ۔ وہ شوق کے عالم میں جواب دے گا ایک بار کھالوںاس کے بعد اگر مر جا¶ں تو پروا نہیں ۔ چاولوں پر اتنا صدقے جاتے ہیں کہ سچ مچ قربان ہو جاتے ہیں ۔سری پائے کھائیں گے حالانکہ اچھی طرح پتا ہوگا کہ یہ ہمارے لئے فائدہ مند نہیں ۔بیماری میں کوئی کتنا ہی پرہیز کرنے والا ہو ۔لیکن ولیمے کے موقع پر شادی ہال کی گول میز کانفرنس میں آٹھ آٹھ آدمی بیٹھے ہوں گے ۔ قسم قسم کے لذیذ کھانوں سے میز سجی ہوگی ۔اس موقع پر بڑے پرہیز کرنے والے بھی اپنی توبہ توڑ دیتے ہیں۔اس وقت بہت دل گردے کا کام ہوتا ہے کہ میز کی طرف للچائی ہوئی نظروںسے دیکھومگر اپنے آپ پر کنٹرو ل رکھو۔حتیٰ کہ مچھلی بھی اگر مقررہ مقدار سے زیادہ کھائی جائے تو بجائے اس کے فائدہ دے الٹا نقصان دے گی۔کیونکہ زیادتی اچھی چیز نہیں خواہ مچھلی ہی کی کیوں نہ ہو ۔