ایسا ہوتاہے

 کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو اچانک وہ موضوع جس پر میں نے قلم آرائی کرنا تھی بھول گیا۔ پھراب تک بھولا ہوا ہے ۔سوچ میں ہوں خدا جانے کیا عنوان تھا جس کے تحت رقصِ قلم ہوناتھا ۔مگر کوشش کر کے بھی ذہن اس طرف جا نہیں رہا۔ پھر وہ آئیڈیانہیں آرہا۔ کمپیوٹر کے آگے حیران پریشان بلوں کی طرح آنکھیں گول مگول گھماتے کبھی چھت کو گھورتا ہوں اور کبھی ذہن کے گھوڑے کو چابک لگاتاہوں مگر ٹس سے مس ہی نہیں ہورہا ۔انگلیاں کمپیوٹر کی بورڈ پر مغل بادشاہ رنگیلے پیا کی فوج کی طرح تیار کھڑی ہیں ۔صرف اشارہ کی دیر ہے اور یہ اپنا کام دکھلاناشروع کر دیں گی۔ یاداشت خراب تو ہے ۔اس میں دوسری رائے نہیں۔ مگر اب اتنی بھی مائل بہ خرابی نہیں کہ شارٹ میموری کا فیوز اڑا دے ۔اوور لانگ میموری تو پہلے سے باریک تاروں کے ہوتے خراب ہو چکی ہے۔ مگر یہ پہلا تجربہ ہے کہ اب نزدیک کی یاداشت بھی اتنی خراب ہوگئی ہے کہ لکھنا کیا تھا بھول بیٹھا ہوں ۔ہاں اس کالم کے دوران میں اگر یادوں کے دریچوں سے اس نقاب پہنے خوبصورت موضوع نے کہیں کسی جھروکے سے تانک جھانک کی تو اس وقت کا اپنا ریلوے کا ٹریک فوراً سے پہلے تبدیل کرلوں گا اور موٹر وے یا ہائی وے یا ایبٹ آباد والی ایکسپریس وے پر جہاز اڑانے لگ جا¶ں گا۔ اگر نہ ہوا تو شہر پشاو رہی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر یا نادرن بائی پاس پر گھڑ دور میں مصروف ہو جا¶ں گا۔ جب تک وہ موضوع پھر ہاتھ نہیں لگتا تب تک تو آپ یہ بیکار کی باتیں ثواب کے لئے پڑھ لیں۔اب بھی کہ ایل سی ڈی سکرین پر لفظ دھڑک دھڑک کر بے دھڑک اپنے آثار پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ یہ الفاظ اپنے آپ کو جیسے عجائب گھر میں بھس بھرے ہرن کی طرح محفوظ کرتے جارہے ہیں ۔ ایسے میں اگر وہ ٹائٹل اپنی شکل دکھلا گیا تو بس وارے نیارے ہو جائیں گے اور کالم نویسی کا حق اگر پورا ادا نہ ہو تو شاید ادا ہو جائے ۔ سوچ میں ہوں کہ کیا لکھوں ۔ ایک موضوع تو نہیں ۔جس پر رقصِ قلم ہونا تھا وہ تو ایک بھرپور تماشا تھا۔ غالب نے نہیں کہا کہ ” گلہ کرتے ہو کیوں رقیبوں سے ۔اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا“ ۔سوچ رہاہوں کہ موجودہ سیاست پر لکھوں جو اس وقت ارضِ وطن کے رہائشیوں کو وطن کے باسی کہنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ جو طاقت و توانائی وہ جو تر و تازہ ہے اور توانا ہے جو بوڑھے گھاگ سیاستدانوں میں سٹیج پر پائی جاتی ہے اس کاحال لکھوں ۔کورنا کی شدت کا تذکرہ کروں یا مہنگائی کی اونچ نیچ بلکہ اونچ سے اونچائی کا ذکر کیا جائے۔ مرغی کاذکر کروں یا اس کے انڈوں کا تذکرہ ہو جائے ۔ کوئی ٹاپک نہیں مل رہا ۔صبح سویرے کے سموگ پر قلم اٹھا¶ں یا بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسوں کے زیادہ ہو جانے پر انگلیوں کو حرکت دوں۔یہاں تو مسئلوں کے انبار لگے ہیں۔ہر مسئلہ سر ابھار کر کہہ رہاہے کہ میرے بارے لکھو۔ مگر سوچ رہا ہوں اگر اس گم گشتہ اور بھولے بسرے عنوان کو چھوڑ کر ان مسائل پر کالم کاری کروں تو اس سے کیاہوگا۔ عصمت خان مروت ریلوے سٹیشن پشاور سٹی نے ایل میل گزاری ہے کہ آپ نے سپلائی روڈ کی ناہمواری اور مخدوش حالت پر لکھا تھا ۔ آپ کے کالم کی وجہ سے پچھلے دنوں حکومت حرکت میں آئی اور اس نے اخبارمیں سڑک کی تعمیر کا ٹینڈر دیا ہے ۔ مگر میں سوچ میں تھا کہ اگر حکومت نے ہمارے ہی کالم پر ایکشن لینا تھا تو اب کیوں لیا تب کیوں نہیںلیا۔ جب سے ہم اس سڑک کی خستہ سامانی کو اپنی تحریروں کے تیروں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اب ہم نے جب ناامیدی کے عالم اس سڑک کے بارے میں چغلی کھانا چھوڑدیاتو سرکار کو اس سڑک کے خراب ہونے کا خیال آیا او راس کی درستی کے لئے اخبار میں اشتہار دیا ہے ۔یہ ہمارے کالم کی وجہ نہیں ۔ یہ تو ان کا اپنا ایک سسٹم ہے جو خرابی کا شکار ہے مگر جب اس میں خرابی خرابی نہ رہے تو انھیں اچانک شہر کی حالتِ زار پر رحم سا آ جاتا ہے اور وہ اس کی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارنے او رکنگھی پٹی کرنے لگ جاتے ہیں۔قارئین جب تک گم شدہ ٹائٹل ذہن میں نہ آئے اِدھر اُدھر کی ہانکیں گے اگر آ گیا تو کالم کو چھوڑ دیں گے اور کانٹا تبدیل کر کے دوسرے ٹریک پرجاتے رہیں گے۔ ویسے یہ ہوتاہے ۔انسان کا دماغ ہے مشین نہیں ۔دماغ کی باریک رگیں ہوتی ہیں بال سے زیادہ باریک ۔اگر کوئی خیال ان رگوں سے گذر کر ذہن کے پردوں پر تصویر نہ بنائے تو انتظار کرنے میں کا حرج ہے ۔آہی جائے گا۔ پھرلکھ لیں گے۔ مگر تب تلک توہم بیچارے کے اس ناکارہ خیال کو آج کے لئے دیکھ لیں ۔سوچ رہا ہوں کہ پولیس کی حالتِ زار پر لکھوں کہ ان کاسسٹم کس قدر خرابی کاشکار ہے ۔مگر ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی پاپیادہ ناراض ہو گیا تو ہمارے گھر سے ہمیں حراست میں لے کر ٹارچرسیل میں منتقل نہ کر دے۔ہماری بوڑھی ہڈیاں تو ان کی چھترول نہ سہہ سکیں گی۔ سو ذہن نے ٹریفک پولیس کی طرف منتقل ہونا چاہا۔ مگر میںنے روکا اے دل روز کا ان کے ساتھ گزارا ہے کہیں روک لیاتو گاڑی کے کاغذ مانگ بیٹھیں گے ۔