کوورنا وبا سے ممکنہ طورپر خود محفوظ رہنے اور گردوپیش میں دوسروں کو ممکنہ طور پر محفوظ رکھنے کےلئے احتیاطی تدابیر پر مشتمل ہدایات کا مجموعہ بطور ’سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز‘ مرتب کیا گیا تاکہ حکومتی وسائل و اختیارات کے سے اِن پر زیادہ سے زیادہ عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ اِس سلسلے میں 2 دسمبر کے روز صحت سے متعلق قومی امور کے بارے وزیراعظم کے معاون ِخصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے اعلان کیا تھا کہ ”3 دسمبر سے ’کورونا وبا‘ کے حوالے سے جاری کردہ ’اِیس اُو پیز‘ کا ہفتہ منایا جائے گا۔“ بارہ دسمبر تک جاری رہنے والی اِس شعوری کوشش میں اب تک کس قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے‘ اِس کا قومی‘ صوبائی اور گردوپیش کی صورتحال میں جائزہ لینے پرمعلوم ہوتا ہے کہ ملک کے کسی ایک بھی حصے میں کورونا وبا کے بارے میں اُس درجے کی خاطرخواہ تشویش نہیں پائی جاتی‘ جسے حکومت دیکھنا چاہتی ہے۔ مذکورہ ’ایس اُو پیز‘ کے مطابق ہر قسم کے اجتماعات سے گریز کیا جائے۔ چار دیواری کے اندر تقریبات کا انعقاد نہ کیا جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں نشستوں کی تعداد کا کم سے کم پچاس فیصد استعمال کی جائیں۔ بازاروں اور تجارتی مراکز میں ہجوم نہ کیا جائے۔ گھر سے نکلنے سے پہلے ماسک پہنا جائے۔ گھر سے باہر ہر وقت چہرہ ڈھانپ کررکھا جائے وغیرہ لیکن عوام کی اکثریت ایسی کسی بھی احتیاطی تدبیر کو ضروری نہیں سمجھ رہی اور نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ سرکاری و نجی ہسپتال کورونا مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ کورونا وبا سے متاثرہ افراد کی شرح جو پہلے دو سے ڈھائی فیصد تھی قریب 10فیصد ہو چکی ہے یعنی ہر 100 افراد کی جانچ کرنے پر قریب 10 افراد میں کورونا کی تشخیص ہو رہی ہے اور ملک کے کچھ حصوں میں یہ شرح 10 سے بھی زیادہ ہے جن میں خیبرپختونخوا میں ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام ’ایبٹ آباد‘ شامل ہے! ذہن نشین رہے کہ ایبٹ آبادکو ”تعلیمی اداروں کا شہر“ بھی کہا جاتا ہے۔ اِس پُرفضا مقام کی خاص بات یہاں کا موسم ہے جو موسم گرما کے طویل دورانئے معتدل رہتا ہے اور تعلیمی سرگرمیوںکو سال کے بیشتر مہینوں میں جاری رکھنے کےلئے موزوں ترین ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ خواندگی کی بلند شرح ہونے کے باوجود بھی ایبٹ آباد میں ’کورونا ایس او پیز‘ پر بڑے پیمانے پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر نصابی تعلیم کا نتیجہ شعور ہوتا تو ایبٹ آباد کا نام صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے اُن چند شہروں میں شمار ہوتا جہاں کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد سب سے زیادہ کیا جا رہا ہوتا اور جہاں کورونا وبا کے سب سے کم متاثرین ہوتے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں۔ سکول‘ کالج اور جامعات بند لیکن شادی ہالز‘ ریسٹورنٹس اور بازاروں کی رونقیں جوں کی توں رواں دواں ہیں۔ پرہجوم پبلک ٹرانسپورٹ کے نظارے بھی دیدنی ہیں گویا پورے معاشرے نے اجتماعی خودکشی کرنے کی ٹھان رکھی ہے!کورونا وبا کے علاج معالجے کی سہولیات میںاضافے سے لیکر اِس سے بچاو¿ کی احتیاطی تدابیر تک جامع دستاویزی حکیمانہ کوششیں ”عملی محاذ“ پر ناکام ہو رہی ہیں کیونکہ اِن کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کےخلاف خاطرخواہ سخت کاروائیاں نہیں کی جا رہیں۔ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کی مثال انسداد تجاوزات اور ’پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی‘ جیسی ہے کہ جیسے ہی متعلقہ حکومتی اداروں کی توجہ کسی دوسری جانب مبذول ہوتی ہے تو تجاوزات کی تعمیر اور پلاسٹک شاپنگ بیگز کا استعمال پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ قوانین و قواعد کے عملاً اطلاق میں حکومتی ادارے بے دلی‘ بیزاری اور تھکاوٹ کا شکار ہیں‘ جس کا ایک محرک ’اداروں میں بیجا سیاسی مداخلت‘ کو قرار دیا جاتا ہے۔ وقت ہے کہ فیصلہ سازی کے منصب پر فائز حکومتی شخصیات اور افسرشاہی سیاسی مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچے کیونکہ وہ بھی اِسی کشتی کے سوار ہے‘ جسے کورونا جیسے بھنور کا سامنا ہے اور اگر بھنور کے کنارے پہنچی یہ کشتی خدانخوستہ ڈوبی تو پھر کوئی بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ فیصلہ ساز متوجہ ہوں کہ کورونا وبا سے متعلق شعور میں اضافہ کرنے کےلئے ’ہفتہ¿ شعور‘ کا اعلان ہی کافی نہیں لیکن اِس پر ہفتے کے ہر دن‘ ہر مہینے اور پورا سال عمل درآمد ہونا چاہئے۔ ”دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر .... اِمکان ِالتفات سے ہم کھیلتے رہے (شوکت پردیسی)۔“