ریاست در ریاست

پاکستان کی داخلی سلامتی کے لئے ’بڑا خطرہ‘ بیرونی دشمن نہیں بلکہ داخلی دوست یعنی وہ ’سیاسی خیرخواہ‘ ہیں‘ جنہیں اندازہ بھی نہیں کہ نادانستہ طور پر اُنہوں نے قومی سلامتی کو داو¿ پر لگا دیا ہے۔ اِس بات کو سمجھنے کےلئے وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو جاری ہونے والے مراسلے کے متن پر غور کرنا ہوگا جس میں اِس جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ ”سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے مسلح دستے تشکیل دے رکھے ہیں جن کے معاملات و افعال کا جائزہ لینے کےلئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ مراسلہ میں باور کرایا گیا ہے کہ اس طرح کے دستے بنانا کہ جن کے بیشتر اراکین مسلح ہوتے ہیں درحقیقت آئین کی دفعہ 256 اور نیشنل ایکشن پلان کی شق نمبر تین کی خلاف ورزی ہے!شہریوں کے بنیادی حقوق کی آئینی شقوں کے تحت شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ریاست کی گردانی گئی ہے چنانچہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کی خاطر ہی ریاستی اداروں کے ماتحت ملٹری‘ پیرا ملٹری اور رینجرز و پولیس فورس تشکیل دے کر ریاست کا امن و امان‘ شہریوں کی حفاظت اور سرحدوں کے تحفظ کی ذمہ داری متعلقہ سکیورٹی فورسز کو تفویض کی گئی چونکہ مسلح اور باوردی فورسز کا ڈھانچہ اور اس کی ذمہ داریاں ریاست کی طرف سے آئین و قانون کے مطابق تشکیل و تفویض کردہ ہوتی ہیں اس لئے نجی سطح پر اس نوعیت کی کوئی عسکری فورس تشکیل دینے کی گنجائش ہے نہ ریاستی سکیورٹی فورسز کے متوازی کسی فورس کی تشکیل کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ایسا کرنے والے درحقیقت ریاست کے اندر ریاست کا تصور اجاگر کرکے ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں اور ملک میں امن و امان کا مسئلہ اور شہریوں کی جان و مال کےلئے سنگین خطرات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سکیورٹی کے نام پر بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور اسی طرح بعض شخصیات کی جانب سے نجی سکیورٹی فورس تشکیل دینے کی روایت کا آغاز ہوا تو ریاستی اتھارٹی کی جانب سے ان پر کسی قسم کا چیک نہ ہونے کے باعث اس کلچر کی حوصلہ افزائی ہوئی جس سے ملک میں لامحالہ سکیورٹی کے سنگین مسائل پیدا ہوئے کیونکہ اس سے ملک میں نجی ہاتھوں میں آنے والے اسلحہ کی بھرمار ہوگئی۔ اس حوالے سے ایک دوسرے کے مدمقابل سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگز قائم کرنے کی روایت کا 1980ءکی دہائی میں کراچی میں آغاز ہوا‘ چنانچہ کسی نہ کسی عسکری ونگ کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کی قتل و غارت گری روزمرہ کا معمول بن گیا اور سیاسی مصلحتوں کے تحت حکومت کی جانب سے عسکری ونگز کی سرکوبی سے گریز کیا جاتا رہا۔۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچستان لبریشن فورس (بی ایل ایف) کے نام پر اپنے عسکری ونگ تشکیل دے کر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا چنانچہ بلوچستان میں بدامنی انتہا کو پہنچ گئی اور صوبائی حکومت کے قابو میں نہ رہی چنانچہ وفاقی حکومت کے شروع کئے گئے ٹارگیٹڈ آپریشنز کا دائرہ بلوچستان تک بڑھا کر گورنر راج کے تحت اس آپریشن کو مو¿ثر بنایا گیا اور یوں پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کےلئے ملک دشمنوں کی جانب سے اسلحہ اور مالی وسائل فراہم ہونے لگے۔ سیاسی عسکری ونگز کی حوصلہ افزائی کے باعث بعض مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے اندر بھی عسکری ونگز متحرک ہو گئے۔ اسی بنیاد پر دہشت گردی کے خاتمہ کےلئے قومی اتفاق رائے (نیشنل ایکشن پلان) تشکیل دیا گیا جس کی تیسری شق کے تحت سیاسی اور دینی جماعتوں کے عسکری ونگز کی کڑی نگرانی کا فیصلہ کیا گیا۔ ایسے عسکری ونگز کی سرگرمیاں روکنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان سرگرمیوں کے باعث ہی پاکستان پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں اور فنانشیل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کےلئے ضروری ہے کہ ہر قسم کے سیاسی و دینی جماعتوں کے دستوں (ملیشیاو¿ں) کا خاتمہ کیا جائے اور بے لاگ و بلاامتیاز سب کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے بصورت دیگر ریاست کے اندر ریاست سے پاکستان کی عالمی ساکھ اور داخلی سلامتی متاثر رہیں گے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو بھی حکومتی اقدام کی حمایت کرنی چاہئے کیونکہ یہ صرف چند سیاسی جماعتوں کی بات نہیں بلکہ پورے سیاسی نظام کی اصلاح ہے آج اگر ایک جماعت کی حکومت ہے تو کل دوسری جماعت برسراقتدار ہوگی عسکری ونگز کا مسئلہ حل کرنا اس وقت اور بھی ضروری ہے کہ سرحدات پر کشیدگی کے باعث پاکستان کی سالمیت کے دشمنوں کو اندرون خانہ حالات خراب کرنے کا موقع مل سکتا ہے جس کا سدباب کرنا نہایت ضروری ہے اور اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی شراکت اور اتفا ق رائے کو اہمیت ملنی چاہئے۔