الہ دین کا چراغ

اگر ایک ایپ بھی ہے تو کافی ہے موبائل کو گود میں لے کر بیٹھے رہو ۔ نہ دن کا پتا لگے گا اور نہ رات کے گزر جانے کااحساس ہوگا۔ پھر ایک تو نہیں درجنوں ایب یا عیب کہہ لو انگلیوں کے نیچے تڑپ رہی ہوتی ہیں۔ اب یہ تو آدمی آدمی تک ہے کہ انسان ہے یا کوئی غیر انسانی مخلوق ۔اگر انسانیت سے استعمال کرے توجی چاہے گا کہ اسے انسان کہہ کر پکارا جائے ۔مگر اسی موبائل پر جو ایپس شیطانی صورت میں موجود ہیں ان کو استعمال کرنے سے پل جھل میں بندہ انسانی درجے سے گرنے کو تیار بیٹھا ہوتاہے ۔ اس موبائل نے بہت فائدے دیئے۔ مگر بندے کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ رات کے دو بجے ہیں یا وقتِ سحر ہے ۔ پورے چوبیس گھنٹوں میں ہزاروں دوستوں میں سے کوئی نہ کوئی آن لائن ہو گا۔ سبز نقطہ روشن ہوکر اندھیارے بادلوں کا پتا دے گا۔ بعض بھائی بند کے موبائل تو رات دن آن رہتے ہیں۔جس وقت ان کو سوال جواب کرو وہ فوراً اپنی موجودگی رجسٹر کروائیں گے۔یوں کہیں فائدہ بھی ہوتب بھی آدمی کسی کا م کا نہیں رہا۔ ہر مسئلہ موبائل پر حل ہو رہا ہے ۔یوں کہئے تو غلط نہیں کہ موبائل ہماری زندگی میں یوں داخل ہے کہ جیسے اس کے ساتھ ہمارا جسم وجاں کا رشتہ ہے ۔رنگین نہ سہی نیٹ والا نہ سہی مگر سادہ ہی کیوں نہ ہو ۔جس کے پاس موبائل نہیں وہ آدمی گویا دنیا میں رہ کرانتقال کر چکا ہے۔ کیونکہ اس کا رابطہ کسی کے ساتھ نہیں۔ اس کی تلاش کریں تو نہیں ملے گا۔ سوشل میڈیا کی اس رابطہ کاری نے زندگی کو بہت آسان کر دیا ہے ۔ مگر کمال یہ ہے کہ ا س کے باوجود انسانیت کو مسائل درپیش ہیں ۔ آئے روز نئے مسئلے سر اٹھا رہے ہیں۔ اس تیز تر ترقی کے باوجود ہماری تقدیر نہیں بدل رہی ۔یہ الہ دین کاچراغ ہاتھ میں ہے مگرغربت ویسے کی ویسی ہے ۔ہر چیز گراں ہے اتنی کہ پاپڑ کااب کیا وزن ہے مگر دکان پر ہاتھ بڑھا کر اٹھایانہیں سکتا۔ مگر اس کے باوجود جو اپنی گھریلو مصروفیات سے بد دل ہیں وہ تو جان بوجھ کر موبائل نہیں رکھتے ۔ پوچھو کہ آپ کے پاس موبائل نہیں۔ جواب دیتے ہیں یار مجھے یہ چیز پسند نہیں ۔ ایک دوست سے ملاقات ہوئی ۔میں نے ان سے نمبر مانگا ۔انھوں نے کہا میرے پاس موبائل نہیں ۔ میں نے ڈر ڈر کر پوچھ ہی لیا آپ موبائل کیوں نہیں رکھتے۔ انھوں نے بلا تکلف جواب دیا ۔یار بات سنو موبائل جیب میں ہوگا تو فون پہ فون آئے گا۔ ایک میسج کے بعد دوسرا پھر تیسرا ۔گھر والی پوچھے گی کہاںہو کس وقت آ¶ گے ۔وال کلاک کو دیکھ کر پوچھے گی یہ بتلا¶ اس وقت کہاں ہو ۔فلاں سودا لے آنایہ لے آنا وہ لے آنا۔میں دیواروں پر رنگ کرنے کاکام کرتا ہوں ۔میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ میں بے دھلے ہاتھوں کے ساتھ جیب سے موبائل نکال کر اور بار بار نکال کر گھر کے مسیج کا جواب دو اور کان سے فون لگا کر بیکار باتیں سنوں۔ مجھے ہنسی آئی ۔میں نے سوچا کہ اب تو ایسی ٹیکنالوجی آ گئی ہے کہ کسی کے ساتھ چپ کو چپکادیا جاتا ہے ۔ جس سے اس کی لوکیشن ہمہ وقت معلوم ہوتی رہتی ہے ۔ پھر قریب ہے کہ ویسٹ کے انگریز معاشرے جوعورتوں کے حقوق کے بہت زیادہ حمایتی ہیں شوہروں کے ساتھ بھی ایسی سم لگا دیں گے کہ شوہر کی ہر وقت کی حرکات وسکنات پر بیوی کی نگاہ ہو۔ بلکہ کیمرہ لگا ہوگاکہ شوہر اپنے ہی سر کے بال سنوارے گا تو یہ سین بھی گھر کی بڑی سکرین پر دیکھا جا رہاہوگا۔ جانے ہمارے معاشرے کا کیاہوگا۔ بندہ بندہ مصروف ہوچکا ہے ۔مگر موبائل میں۔ مگر اس میں فراغت کا دخل اب نہیں رہا ۔ ایسا نہیں کہ بندہ موبائل کو زیادہ استعمال کر رہاہے وہ زیادہ فارغ ہے ۔موبائل پر کام کرنے والا مصروف ہوگا اور اپنے کام کاج اور روزی روٹی کےلئے موبائل ہاتھ میں تھامے ہوگا۔ بیسیوں ایپس میں سے ایک کے ساتھ بھی کام ہو تو بندہ پورا دن فارغ نہیں بیٹھے گا۔باہر کی اقوام نے موبائل ایجاد کر کے ہمارے ساتھ زیادتی اس لئے کہ بچہ ہے یا بچی ہے گھر کے کام سر کھا رہے ہیں او روہ موبائل کے ساتھ دل لگی کر رہے ہیں ۔ اس میںہر آدمی کو اپنے ذہن کے مطابق ہر طرح کی تفریح افراتفری کی حد تک دستیاب ہے ۔بیگم صاحبہ ہیں تو ہانڈی جلا دی مگر موبائل میں آنکھیں او رنظریں پیوست کئے بیٹھی ہیں۔ فیس بک پررشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ کھیل تماشے ہورہے ہیں۔جانے یہ دنیاکس طرف جا رہی ہے ۔پھر آخر اس کی انتہا کیا ہوگی۔ کیونکہ کوئی چیز نہیں جو موبائل کی زد سے محفوظ ہو ۔معاملہ سمجھ سے باہر ہے ۔استعمال کرو تو مسئلہ اگر نہ کرو تو مسئلے ۔ رابطہ ضروری ہے مگر اتنا ربط و ضبط بھی نہ ہو کہ اگر دور دراز کے ملکوں میں بیٹھے سات کے سات سمندروں کے پار والے پیارے لوگ قریب ہو گئے مگراپنے کمرے میں بیٹھے تو دور نہ ہوں۔بس کھیل تماشے ہیں او رہم ہیں۔ بچوں بوڑھوں جوانوں بچیوں پھرعمر کے فرق سے ہٹ کر پیشوں کے لحاظ سے ہر آدمی کو یہ الہ دین کا چراغ بہت کچھ دیتا ہے ۔