کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ شاپنگ بیگز کی نوڈلز، کریڈٹ کارڈ سے بنا ہوا برگر یا پی وی سی پائپ کا بنا ہوا اسٹیک کھائیں؟ نہیں نا؟ اس کے باوجود ہم میں سے ہر ایک اپنی پوری زندگی میں اوسطاﹰ بیس کلو گرام تک پلاسٹک کھا جاتا ہے۔
جدید دور کی انسانی زندگی میں ہم سب بظاہر نا کھانے کے باوجود اس لیے بہت سا مائیکرو پلاسٹک بھی کھا پی جاتے ہیں کہ اشیائے ضرورت اور اشیائے خوراک کی تیاری، خریداری اور استعمال میں ہر جگہ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں جس طرح قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے، اسی طرح روزانہ بنیادوں پر استعمال کیے جانے والے اس مائیکرو پلاسٹک (پلاسٹک کے مائیکرو سکوپک ذروں) کو جمع کیا جائے تو ایک عام انسان کی زندگی میں اس کے جسم میں پہنچ جانے والے پلاسٹک کا فی کس اوسط وزن تقریباﹰ 20 کلو گرام بنتا ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) انٹرنیشنل کی گزشتہ برس مکمل کی گئی ایک مفصل تحقیق کے بعد کہا گیا تھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ عام انسانوں میں سے ہر ایک ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ کے برابر پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات بہت متنوع اور بہت زیادہ ہیں، جن میں پینے کے پانی میں شامل کیے جانے والے پلاسٹک کے ذرات سے لے کر شیل فش جیسی انسانی خوراک تک سب کچھ شامل ہے۔
شیل فش کی مثال اس لیے دی گئی کہ پانی میں پایا جانے والا مائیکرو پلاسٹک اس مچھلی کے جسم میں بھی پہنچ جاتا ہے اور جب انسان یہ پوری مچھلی کھا جاتا ہے، تو اس کے نظام ہضم میں موجود پلاسٹک کے ذرات بھی انسانی معدے میں پہنچ جاتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس تحقیق کے نتائج کی عملی وضاحت کے لیے ماہرین کی مدد سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ہم سب اوسطاﹰ جو پلاسٹک کھا جاتے ہیں، اس کی فی کس مقدار کتنی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کے دور کا ایک عام انسان سال بھر کے دوران جتنا پلاسٹک کھا جاتا ہے، اس کا وزن کسی فائر بریگیڈ کارکن کے ہیلمٹ کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔
اس طرح اگر سالانہ کے بجائے عشرے کی بنیاد پر دیکھا جائے، تو اپنی زندگی کے ہر دس برسوں میں ہم میں سے ہر کوئی تقریباﹰ 2.5 کلو گرام یا 5.5 پاؤنڈ کے برابر پلاسٹک کھا جاتا ہے۔ ایک عام انسان کی اوسط عمر اگر 80 سال تصور کی جائے، تو اس کا مطلب ہے کہ شعوری طور پر' پلاسٹک نہ کھانے کے باوجود‘ ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی میں اوسطاﹰ 20 کلو گرام یا 44 پاؤنڈ پلاسٹک کھا جاتا ہے۔
گزشتہ نصف صدی کے دوران سستی اور صرف ایک بار استعمال میں آنے والی اشیاء کی تیاری کے لیے پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال دونوں کے حجم کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔
پلاسٹک وقت کے ساتھ گل سڑ کر پھلوں اور سبزیوں کی طرح زمین اور فطرت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ اس لیے کہ اس کی مادی ہیئت عشروں بلکہ صدیوں تک قائم رہ سکتی ہے۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم بھی ہو جاتا ہے، اور یہی ٹکڑے بعد میں زمینی اور سمندری علاقوں میں پھیل جانے کے علاوہ فضا میں بھی پہنچ جاتے ہیں اور انسانی فوڈ چین میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
آپ چند کیلے خریدیں، یا چند سیب، فوراً ہی آپ کا ہاتھ پلاسٹک کے شاپر کی طرف جائے گا۔ ہر جرمن شہری سالانہ اوسطاً 71 پلاسٹک بیگز استعمال کرتا ہے۔ تاہم سو فیصد پلاسٹک سے بنے شاپنگ بیگز کی بجائے اور کئی طرح کے بیگز استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
برطانیہ کی ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی کے ماحولیاتی سائنس کے پروفیسر میلکم ہڈسن اس موضوع پر طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ صرف مائیکرو پلاسٹک ذرات ہی نہیں بلکہ ان سے بھی چھوٹے وہ خوردبینی ذرات بھی ہیں، جنہیں نینو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔
نینو پلاسٹک اس لیے اور بھی مضر ہے کہ وہ مائیکرو پلاسٹک کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیلتا ہے اور وہاں تک بھی پہنچ جاتا ہے، جہاں مائیکرو پلاسٹک نہیں پہنچتا۔
پروفیسر ہڈسن کے مطابق، ''یہ نینو پلاسٹک ذرات اتنے خطرناک اور ایسے بہت چھوٹے چھوٹے ٹائم بموں کی طرح ہوتے ہیں، جو انسانی جسم کے دورانِ خون اور دیگر نظاموں کے ذریعے مختلف اعضاء تک پہنچ کر وہاں جمع بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ (بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو)